تحریر: اسحاق محمدی
21 جولائی 2016 کو بلبل ھزارستان کے نام سے جانی جانے والی معروف گلوکارہ دلارام آغئی اپنے آبائی گاوں نودہِ مالستان میں اتقال کرگئی انکی عمر 87 سال تھی۔ آبے مرزا کا اصل نام گل اندام تھا جو 1929 میں ضلع مالستان کے ایک چھوٹے سے گاوں "نو دہِ” میں پید ھوئی تھی۔ بدقسمتی سے ایک عورت ہونے کے ناطےاسکی زندگی کے بارے میں زیاد معلومات دستیاب نہیں البتہ کہا جاتا ھے کہ اسے بچپن سے ہی گانے کا جنون تھا۔ وہ ایک خوش گلو لڑکی تھی اور کم عمری سے شادی بیا، شاوشینی، چاردہ پال وغیرہ کی محفلوں میں گنگناتی تھی۔ انہی محافل سے انکو شاعری کا ذوق بھی ملا۔ کہا جاتا ھے کہ بھیڑ بکریاں چرانے کے دوران ننھی گل اندام نے خود اپنے ہاتھوں سے دمبورہ بنائی اورسب سے چھپ کر دمبورہ بجانے کی پریکٹیس کرنے لگی، جیسے واپسی پر گھر کے قریب ایک غار میں چھپا دیتی تھی۔ کم عمری ہی میں اسکی شادی امیر جان نامی شخص سے ھوئی اور اگلے برس اسکے ہاں لڑکا ہوا جس کا نام "مرزا حسین” رکھا گیا۔ بڑے لڑکے کے نام کی مناسبت سے اسے آبے مرزا بھی کہا جاتا ھے۔
قرائین سے پتہ چلتا ھے کہ آبے مرزا نے شادی اور تین بچوں کی ماں بننے کے بعد 1950 کی دھائی میں، چاردہ پال اور شاوشینی کی محفلوں میں دمبورہ اور غیچک کے ساتھ باقاعدہ گانے لگی جو ایک روایت شکن بات تھی۔ خاتون گلوکارہ، دل نشین آواز اور مدھر کمپوزنگ نے راتوں رات اسکو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دی، جو ایک ملا زدہ پسماندہ مردانہ سماج میں کھلی بغاوت کے مترادف تھی، اس لیے اسے ملاوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر اسکی خوش قسمتی کہ ظاہر شاہ کے اس دور میں ملاوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی جرات نہیں تھی، اس لیے وہ براہ راست آبے مرزا کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کے قابل نہیں تھے تاہم وہ اپنے روایتی حلیف خوانین اور قریہ داروں کے ذریعے لغو اور بے بنیاد الزامات لگاکر اسے علاقہ بدر کرکے غزنی جیل بھیجنے میں کامیاب ھویں۔ کہا جاتا ھے کہ جس دن اسے مالستان سے غزنی لیجایاجا رہاتھا، راستے بھر میں ہزاروں زن ومرد چھوٹے بڑے اسکی ایک جھلک دیکھنے کیلیے اُمنڈ آئے تھے ۔ غزنی جیل میں بھی وہ اکثر گنگناتی رہتی تھی جسکی وجہ سے جلد ہی وہ اس جیل میں بھی مشہور ھوگئی۔ اسیری کے ان مشکل ایام کے دوران ان سے درجنوں اشعار منسوب ہیں جس میں یہ اشعار زیادہ مشہور ہیں
گلِ صد برگِ تابستانم اے یار
فرار از ملکِ مالستانم ای یار
ہمان روزی کہ گشتم از وطن دور
خدا داند کہ پریشان حالم ای یار
مزید کہا جاتا ھے کہ اسکی گانے کی شہرت اور خوش الحانی، جیلر تک پہنچی تو وہ اسے سننے خود جیل پہنچا۔ گانے اور آواز سے بہت متاثر ہوا۔ اسکی داستان غم سنکر اسے بہت افسوس ھوا اور یہ کہتے ہوئے اسکی رہائی کا حکم دیدیا کہ ایسی "آواز کو قید میں رکھنا خود جرم ھے”(بی بی سی-2013)۔ اپنے آبائی وطن پہنچنے پر اب اسکے خلاف کسی کو غلط قدم اٹھانے کی جرات نہ تھی، لہذا اس نے مقامی لوک گلو کار صفدر مالستانی کی مدد سے اپنے گانے، مروجہ آڈیو ٹیپ (530) کے ذریعے ریکارڈ کرنا شروع کردی جو کیسٹوں کی شکل میں ہاتھوں ہاتھ پورے ھزارہ جات تک پہنچتی گئی۔ لیکن آبے مرزا کے گانوں کو اصل شہرت ریڈیو پاکستان کویٹہ کے "برنامہ ھزارہ گی” سے ملی جو ابتدا (1974) میں صرف آدھ گھنٹہ کے دورانیے کا تھا لیکن اسکی بے انتہا مقبولیت کے باعث بڑھتے بڑھتے ڈیڑھ گھنٹے تک کا ہوگیا تھا۔ اس ھزارہ گی پروگرام میں آبے مرزا کے گانے "دلارام آغئی” کے نام سے نشر کیجاتی تھی۔ چونکہ اسکی نشریات بالائی بلوچستان، پورے افغانستان سمیت مشہد تک سنی جاسکتی تھی اور اس وقت ھزارہ گی زبان میں دنیا کا واحد پروگرام تھا اس لیے ھزارہ گی موسیقی کے ساتھ ساتھ "دلارام آغئی” (آبےمرزا) کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دی۔ "برنامہ ھزارہ گی” کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ سالوں تک پاکستان بھر میں سامعین کے خطوط ملنے کے حوالے سے سرفہرصت تھا جنکی تعداد سینکڑوں فی ہفتہ تھی۔ میں خود اس پروگرام سے وابستہ تھا۔ ہر بدھ کے دن سامعین کی فرمایش کے گانے نشر کیجاتی تھی جس میں سب سے زیادی فرمایشیں "دلارام یعنی آبے مرزا” کی ھوتی تھیں۔
دلارام آغئی خداداد صلاحیتوں کی مالکہ تھی اسنے اپنے تمام گانوں کی کمپوزنگ خود کیں، سازوں اور اشعار کا انتخاب بھی خود کرتی تھی۔ سازوں میں دمبورہ کے علاوہ، غیچک، دف اور کبھی کبھی نی (بانسری) کا استعمال کرتی تھی جو ھزارہ جات کے دیگر علاقوں کی موسیقی کے مقابلے میں کافی یونیک ھے جہاں زیادہ انحصار دمبورے پر ہوتے ہیں۔ بلا شبہ دلارام آغئی نے ھزارہ گی موسیقی میں یادگار نقوش چھوڑی ہیں جنکی پیروی کئی نسلیں کرتی آرہی ہیں اور کرتی رہیگیں۔ انکی گانے، دوبیتی تمام بڑے گلوکاروں جیسے استاد صفدر مالستانی، استاد خیرعلی، استاد توکلی، سرور سرخوش، میرچمن سلطانی سمیت اکثر ھزارہ اور افغانستان کے غیر ھزارہ گلوکاروں نے اعزاز سمجھ کر گائے ہیں۔
افغانستان میں ثور انقلاب اور پھر ھزارہ جات کا ملاوں کے قبضے میں چلے جانے سے حالات، ثقافتی سرگرمیوں کیلیے نا سازگار بن گئے خاص کر خواتین آرٹسٹوں کیلیے۔ لیکن دلارام آغئی اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ اسکا تعلق مالستان سے تھا جیسے ھزارہ گی موسیقی کا گہوارہ کہا جاتا ھے جسکی آبیاری اٹھارویں اور انیسویں صدی کے دوران دایہ و فولاد کے خود مختار حاکم جرس خان ھزارہ اور بنیاد خان ھزارہ نے کی تھی۔ یہ امیر خون آشام عبدالرحمان سے پہلے کا دورھے۔ کئی لکھاریوں کے مطابق ان حاکموں کی سرپرستی میں موسیقی کی بڑی بڑی محفلیں سجتی تھیں۔ انکی کوششوں سے یہاں کے عوام موسیقی کے دلدادہ رہے ہیں۔ اسی عوامی رائے عامہ کیوجہ سے ملا، دلارام آغئی کو کڑی سزا تو نہ دے سکا، تاہم اس پر طعنوں اور افتراپردازیوں کی ایک باقاعدہ مہیم چلائی، جس کیوجہ سے انکے تینوں بچے علاقہ چھوڑنے پر مجبور ھویں، عزیز و اقارب میل میلاپ سے کترانے لگے، لیکن اس با ہمت خاتون نے اپنی آبائی گاوں "نودِہ” میں رہتے ھوئے ان تمام منفی عوامل کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ بڑھاپے میں اسکی کل متاع حیات، ایک کچا مکان، چند درخت، چند بھیڑ بکریاں اور ایک گائے تھی۔
حالیہ چند سالوں کے دوران ھزارہ ڈائیسپورا کو اس گوہر نایاب کی قدر و قیمت کا اندازہ ھوا۔ کئی لوگ ان تک پہنچ بھی گئے لیکن شاید بہت دیر ھوچکی تھی۔ حالات کے ستم نے اسکی یادداشت متاثر کردی تھی، تاہم اس خود دار خاتون نے اس حالت میں بھی امداد لینے اور اپنا وطن چھوڑنے سے انکار کردی، اس لیے سوائے چند تصاویر اور چند پراگندہ تحریروں کے اور زیادہ مواد دستیاب نہیں۔ لیکن اس بہادر روایت شکن اور سروں کی شہزادی کی زندگی کے مختلیف گوشوں اور کارناموں پر ابھی بہت لکھنے کی ضرورت ہیں۔ ابھی بھی دیر نہیں کیونکہ اسکے ہمعصر نسل ابھی زندہ ہیں۔
اگرچہ ھزارہ گی موسیقی کا یہ روشن ستارہ غروب ھوا ھے، مگر اسکے منفرداسلوب، مدھرطرز، سریلی آواز کی جادوں اس وقت تک رہیگی جب تک ھزارہ قوم زندہ ہیں اور ھزارہ گی موسیقی قایم ہیں۔ البتہ بحیثیت ایک روایت شکن خاتون، اسکا ایک جداگانہ اعلیٰ مقام ھے جس کیلیے علحدہ مضمون درکار ھے۔
روح اش شاد و یاد اش جاویدان باد!