محمد عیسیٰ غرجستانی، ھزارہ قوم ایک کا اثاثہ

تحقیق و تحریر: اسحاق محمدی

شادروان محمد عیسیٰ غرجستانی حصہ اول بہسود قریہ شاھرگ کے ایک عام ھزارہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انکے والد کا محمدافضل ھے۔ انکی سن پیدایش میں اختلاف ھے۔ استاد غفور ربانی، 1944 لکھتے ہیں جبکہ شادروان کے بڑے صاحبزادہ تیمورغرجستانی 1947 بتاتے ہیں۔ ھزارہ تاریخ کے حساب سے امیر جابر عبدالرحمان کے سیاہ دور کے بعد جسمیں اس نے ھزارہ قوم کی 60 فیصد سے زاید کی آبادی کا یا تو براہ راست قتل عام کیا یا انکی زرخیز زمینیں چھین کر افغان کوچیوں میں تقسیم کرکے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا کے بعد یہ ایک کٹھن دور تھا کیونکہ ظاہر شاہ کا والد نادرشاہ ایک ھزارہ طالبعلم عبدالخالق ھزارہ کے ہاتھوں 1933 میں قتل ہوا تھا تو اس حوالے سے پورا ھزارہ جات اور ھزارہ عوام زیر عتاب تھے۔ ان پر بھاری ظالمانہ ٹیکسیز جیسے "روغن کٹہ پاوی” شاخ پولی” وغیرہ عاید تھے(1)۔ کوچیوں اور لوکل انتظامیہ کے مظالم انتہا پر تھے۔ اس دور میں پورے ھزارہ جات میں سکول، ڈسپنسری، سڑکوں وغیرہ کا نام و نشان نہ تھا۔ سو محمدعیسیٰ غرجستانی کو قریہ کے امام مسجد کے ہاں داخل کردیا گیا جہاں انہوں نے روایتی عربی صرف و نحو، زنجانی، سپارہ، قران اور آخر میں دیوان حافظ شیرازی پڑھی۔ بعد ازآں یہ گھرانہ ان ھزارہ دشمن حکومتی معاشی پالسیوں کے سبب بہسود چھوڑ کر کابل شفٹ ہونے پر مجبور ہوئے۔ یہاں بھی معاشی اسباب کے تحت ننھے غرجستانی کو سکول کی بجائے کام کے پیچھے بھاگنا پڑا لیکن علم و دانش کےدیوانے غرجستانی نے کبھی اپنا تعلق اس سے نہیں توڑا۔ اس دوران انکو شہید اسماعیل مبلغ جیسے بلندپایہ مفکر سے سیکھنے کے مواقع ملے، نیزفکری لحاظ سے ساٹھ کی دھائی افغانستان میں بائیں بازو کے خیالات کے ظہور کا دور ھے سو، شادروان غرجستانی کو انکے افکار کو سمجھنے کے مواقع بھی ملے۔ لیکن انہوں نے لیفٹ و رائیٹ کی نظریاتی بھول بھلیوں میں پڑے بغیر تاریخ اور بطور خاص ھزارہ تاریخ کے مطالعے پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز رکھی۔ اس دوران اسکے کئی مقالے پیام وجدان اور کاروان نامی مجلوں میں چپھے۔ اپریل 1978 کے ثورانقلاب کے بعد جب انتہاپسند نئے انقلابیوں کی طرف سے مخالفین کی وسیع پیمانے پر پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی تو شادروان غرجستانی، کابل چھوڑکر پہلے اپنے آبائی علاقہ بہسود اور بعد ازآں کویٹہ پاکستان آگئے۔ اس وقت تک پاکستان نواز اتحادیہ مجاھدین نامی ثورانقلاب مخالف مسلح مزاحمتی تنظیم بنکر دو حصوں میں تقسیم ہوچکی تھی جن میں ایک اتحادیہ تنظیم اور دوسری اتحادیہ حاجی رسول کے نام سے تھی۔ شادروان غرجستانی کابل کے دور سے حاجی رسول سے آشنا تھے لہذا اسکی اتحادیہ میں شمولیت اختیار کی اور شعبہ "فرھنگی” کی بنیاد رکھی۔ شادروان نے اس پلیٹ فارم سے "ندای کوہ بابا” نامی ایک نیم سیاسی نیم فرھنگی مجلہ کی ابتداء کی لیکن چونکہ حاجی رسول بنیادی طورپر ایک ناتجربہ کارغیر سیاسی شخصیت تھی لہذا بہت جلد شادروان غرجستانی اس سے الگ ہوگئے اور "شورای فرھنگی” کے نام سے اپنی ایک علحدہ ادبی تنظیم بنالی۔ شادروان کی اکثر کتابیں اور اسکی اخبار "ندای خراسان” کی ایڈیشنز اسی شورای فرھنگی کے بینر تلے چھپی ہیں۔ 6 جولائی 1985 کے خونین واقعے کے بعد جب ھزارہ افغان مہاجرین کی پکڑدھکڑ شروع ہوئیں تو شادروان غرجستانی نے اس وقت کے افغان ریفیوجز کمشنر برگیڈئیرخادم حسین خان چنگیزی کے تعاون سرخاب اور پنجپائی مہاجرکیمپوں میں ان ھزارہ مہاجرین کیلئے کیمپس قایم کیں۔ شادروان غرجستانی نے ان کیمپوں میں نہ صرف سکول بلکہ خواتین کیلئے ہنرمراکز بھی قایم کیں۔ غرجستانی بڑے دوراندیش انسان تھے، چونکہ وہ عجلت میں کوئی نیا نصاب نہیں بناسکتے تھے لہذا اسی مروجہ نصاب ہی کو اپنے سکولوں میں پڑھانے لگے، لیکن اس نے افغانستان کی تاریخ بشمول ھزارہ تاریخ کی باقاعدہ تدریس بھی شروع کرائیں۔ 1990 کے دوران افغانستان کے مختلیف حصوں میں ھزارہ- پشتون جھگڑوں میں اضافے کے منفی اثرات ان مہاجر کیمپوں میں بھی پھیلنے لگے۔ چند ایک چھوٹے مارپیٹ کے بعد بلاخیر ایک رات مخالفین نے سرخاب میں ھزارہ مہاجر کیمپ پر حملہ کردیا۔ لیویز کی بروقت مداخلت سے کوئی جانی نقصان نہیں ھوا تمام ھزارہ مہاجرین کو بحفاظت نکال لیے گئے لیکن باقی سب چیزیں لوٹ لی گئیں۔ بعد ازآن پنجپائی کی ھزارہ مہاجر کیمپ بھی بند کردی گئی۔

ان تمام واقعت سے قطع نظر شادروان غرجستانی کی زیادہ تر تحقیقی کتابیں اور ندای خراسان کی ایڈیشنز اسی دوران زیور طباعت سے آراستہ ہوکر قارئین تک پہنچیں۔ وہ ہمت و توانائی سے بھرپور شخصیت تھی۔ ابتدائی دنوں میں (ً1982 تا 1985) وہ اپنی اخبار کیلئے خود ہی لکھتے، خود ہی کتابت کراتے اور پرنٹ کراکے خود ہی سائیکل پر اسکو فروخت کرتے تھے۔ مجھے بخوبی یاد ھے کہ وہ اکثربلند آواز میں اخبار کی ہیڈلائینز بھی سناتے جاتے تھے۔ مثلاً ایران نواز گروہوں کے ہاتھوں جب حاجی نادرترکمنی کی المناک شہادت ہوئی تو شادروان غرجستانی نے کئی اقساط میں اس خبر کو کوریج دی۔

چناچہ وہ بلند آواز میں پکارتے جاتے "حاجی نادر را کی کشت، در شمارہ جدید ندای خراسان بخوانید”۔ اسی دوران ایران نواز گروہوں کی طرف سے انکو دھمکیاں بھی ملیں۔ اتحادیہ حاجی رسول میں رہنے کی وجہ سے تنظیم ہائی کمان جیسے غلام علی حیدری، جواد ایثار وغیرہ ان سے خوش نہیں تھے، لیکن ھزارہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے میں اور شادروان عالم مصباح ہمیشہ اسکی حمایت کرتے تھے۔ ایک موقع پر ہم نےکچھ دوستوں کو حرکت شیخ آصف کے دفتر واقع علمدار روڑ (بالائی منزل موجودہ حاجیکہ گراج) بھی بھیجے کہ وہ مزید غرجستانی کو تنگ نہ کریں، جسکا اچھا خاصا اثر ھوا۔ اسی طرح عیدین کے دوران ھزارہ عیدگاہ کے سامنے ایچ ایس ایف کے اسٹال پر ہم اسکی کتابیں اور اخبارات بھی فروخت کرتے تھے جوکہ در اصل ایران نواز گروہوں کیلئے ایک پیغام تھا کہ وہ غرجستانی کیلئے کوئی پریشانی پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں۔ باہمی شناخت میں گہرائی کے باعث آگے چلکر کر جب 1989 میں ھزارہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے معروضی حالات کے تحت ڈاکٹرنجیب کی حکومت کی حمایت کی اور ہماری سیاسی راہیں جدا ہوئیں تب بھی شادروان غرجستانی نے کبھی ہم سے قطع اختیار نہیں کی (تفصیل آگے)۔

شادروان غرجستانی نہایت پُرکار اور کمیٹیڈ لکھاری تھے۔ ھزارہ تاریخ نگاری کو ایک قومی فریضہ جان کر لکھتے تھے۔ انکی پُرکاری کا اندازہ انکی طویل کتابوں کی فہرست سے بخوبی کیا جاسکتا ھے۔ مہاجرت کی زندگی، معاشی مشکلات، مخالفین سے لاحق خطرات اور بہت سارے دیگر رکاوٹوں کے باوجود دس گیارہ سال کی مختصر مدت کے دوران انکی یہ کتابیں، مجلے اور اخبارات کسی خزانہ سے کم نہیں:

1۔ نقش ملت ھزارہ در انقلاب افغانستان
2۔ حماسہ ھزارہ
3۔ پیام تاریخی ھزارہ جات
4۔ شکست روسھا در ھزارہ جات
5۔ مبارہ ھزارہ ھا در بیست سال اخیر
6۔ تاریخ سیاسی ھزارہ ھای افغانستان
7۔ تاریخ نوین ھزارہ جات
8۔ از ھزارہ جات تا لندن
9۔ تاریخ ھزارہ و ھزارستان
10۔ مسایل انقلاب افغانستان
11۔ دنای ارباب
12۔ نوکر
13۔ رستاخیز جنگ افغانستان
14۔ کلہ منارھا در افغانستان
15۔ اشک خاور
16۔ سیمای سرزمین برفباد
17۔ ندای افغانستان
18۔ ندای کوہ بابا (مجلہ)
19۔ ندای خراسان (اخبار)

متذکرہ بالا کتب میں "کلہ منارھا” ایران سے اور "تاریخ نوین ھزارہ” کابل سے انکے ورثاء کی اجازت کے بغیر دوبارہ پرنٹ کرائی گئی ہیں جبکہ باقی اب نایاب ہیں۔

شادروان غرجستانی کئی اوصاف کے مالک تھے۔ وہ ایک سچھا، نڈر اور بے باک ھزارہ فرد تھے۔ انہوں نے اس وقت ھزارہ ھزارہ کا نعرہ مستانہ بلند کیا جب ھزارہ قوم کے پڑھے لکھے دونوں طبقے یعنی جدید تعلیم یافتہ اور مدرسوں کے علماء "انٹرنیشنلیسٹ” افکار کے پیروکار تھے اور قوم پرستی دونوں کی نظر میں گناہ کبیرہ۔ اسی لئے وہ دونوں طبقوں کے سخت تنقید کے زد پر تھے۔ انکی ایک اور صفت انکے وسیع ذاتی رابطے تھے۔ غالباً 1990 کے دوران ڈنمارک سے ایک ھزارہ خاتون بینظیر آئی تھی جسکے متعلق محترم حسین افغانی (بابئی) کی سفارش تھی کہ اسکی مختلیف سیاسی و علمی ھزارہ شخصیات سے ملاقات کرائی جائے۔ ہماری ملاقات شادروان غرجستانی سے اسکے ھزارہ ٹاون رہایشگاہ میں ہوئی۔ انہوں نے ہمیں اپنی کتابوں کی کلیکشن کے علاوہ دنیا کے گوشے گوشے میں مقیم اپنے درجنوں دوستوں سے خط و کتابت کے نمونے بھی دکھائے۔ ان میں ایران سے چنگیز پہلوان اور پولینڈ سے افغانستان اطلس پر کام کرنے والے محققین بھی شامل تھے۔ اوایل کے بارے میں علم نہیں 1985 کے بعد انکے اکثر انگریزی خطوط کی ڈرافٹینگ شادروان عالم مصباح کرتے تھے۔ معلوم نہیں اب یہ علمی خزانہ کہاں ھے؟۔ 1990 کے دوران انہیں لندن کے ایک علمی سمینار میں شرکت کی جسکی روئیداد "از ھزارہ جات تا لندن” مین مجوجد ھے جبکہ ایک اور دورے میں ایک وفد کے ہمراہ ھزارہ جات گئے۔ اس دورہ کے فوٹوگرافراسماعیل یاسر تھا۔ کچھ تصاویر حال ہی میں سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوئی ہیں۔ ایک تصویر میں شادروان غرجستانی، پیرصبغت اللہ مجددی اور کمانڈر احمد شاہ مسعود کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔

میرا شادروان غرجستانی سے تعلق:
ہائی سکول سے مجھے فارسی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ اپنے بیج میں پورے یزدان خان میں، میں فارسی کا اکلوتا سٹوڈنٹ تھا اور ٹیچرحشمت صاحب تھے(باقی ڈارئینگ کے تھے)۔ اسی شوق کی وجہ سے میں نئی فارسی کتابوں کی کھوج میں لگا رہتا۔ شاید 1980 کے اواخیر یا 1981 کی شروعات تھی کسی نے مجھے بتایا کہ فارسی میں ایک نئی کتاب آئی ھے جسمیں ھزارہ جنگوں کو شعر کے قالب میں بیان کیا ھے۔ کافی تگ و دو کے بعد ناصرآباد گلی بابے صادق کا پتہ ملا۔ مکان میں لوگوں (مرد حضرات) کا زیادہ آنا جانا تھا، وہی کتاب کے بارے میں پوچھا۔

ایک آدمی نے مجھے صحن میں انتظارکرنے کو کہا تھوڑی دیر کے بعد ایک اور آدمی آیا میرا نام، آنے کا مقصد پوچھا۔ میں نے بتادیا تو وہ کمرہ سے ایک کتاب لاکر مجے تمادی اور پیسے بھی نہیں لیے۔ بعد میں پتہ چلا کہ انکا نام محمدعیسیٰ غرجستانی تھے۔ آگے چلکر مزید ملاقاتیں ہوئیں اچھے دوست بن گئے۔ میں، مصباح، دہقانزادہ اکثرو بیشتر انکے گھر جایا کرتے تھے۔ انہی کے اصرار پر مصباح نے شادروان حسن فولادی کی کتاب "دی ھزارہ” کا اردو میں ترجمہ کرنے کی شروعات کی تھی جو ابتدائی دو ابواب تک ہوپائی۔ ایچ ایس ایف کےکئی سیمینارز میں شرکت کی اور مقالے پیش کیے۔ ریڈیو پاکستان کویٹہ برنامہ ھزارہ گی میں ایک ساتھ کام کیے۔ 1989 میں جب ایچ ایس ایف نے ڈاکٹرنجیب حکومت کی حمایت کا فیصلہ کیا تو شادروان غرجستانی کافی خفا ہوئے۔ مجھے اور مصباح کو گھر بلا کر کافی نصیحتیں کیں۔ ہم نے بھی پورے احترام کے ساتھ اپنی تمام معروضات پیش کیں، جیسے سنکر وہ پوری طرح مطمئین تو نہیں ہوئے البتہ دوستانہ تعلقات، آناجانا، ہمارے پروگرامز میں شریک ہونا حسب سابق جاری رکھا۔

اپریل 1992 میں جب ڈاکٹرنجیب حکومت کی جگہ نام نہاد مجاھدین کی حکومت قایم ہوگئی تو بہت سارے لوگوں کے ساتھ شادروان غرجستانی نے بھی کابل جانے کا پروگرام بنایا۔ ایک دن میرے دفتر آئے کہاں "جان کاکا (وہ اکثر مجھے اسے طرح مخاطب کرتے) میں اگلے ہفتہ کابل جارہاھوں تم ساتھ نہیں چلوگے”؟ میں نے کہا اس دفعہ نہیں اگلی بار ضرورجاونگا۔ پھر میں نے اسے کھانے کی دعوت دی۔ بے حد خوش ھوئے کہا کہ "فلاں رات کا کھانا بنالینا میں رات تمہارے ہاں سولونگا اور اگلے دن سیدھا ریلوے اسٹشن جاونگا، یہ ھزارہ ٹاون کی نسبت آسان بھی ھے”۔

مقررہ شام کے وقت سفری بیگ کے ساتھ ایک بڑی بوری کے ساتھ گھر پہنچے۔ پتہ چلا کہ بوری میں اسکی اپنی چند کتابوں کے علاوہ اسماعیل مبلغ کی "سید گرای” نامی کتاب بھی موجود ہیں۔ میں نے اس کتاب پر تشویش کا اظہار کیا تو بولے یہ پہلے کابل میں چھپ چکی ھے۔ ہم رات دیر گئے تک باتیں کرنے کے بعد سوگئے۔ اگلے دن وہ پشاور کیلئے روانہ ھوگئے۔ کئی مہینوں بعد انکی گمشدگی کی اطلاع ملی۔ مجھ سمیت تمام دوستوں کو یقین تھا کہ بابہ مزاری اسکی بازیابی کیلئے ضرور کوشش کرینگے، لیکن بعد ازآں وہ مسعود، سیاف جنگوں میں الجھ گئے۔ میں نے ذاتی طورپر انکی گمشدگی کے بارے میں جاننے کی کافی کوشش کی صرف اتنا پتہ چلا کہ وہ آخری رات شہید اسماعیل مبلغ کے بیٹے کے ہاں تھے۔ اگلے روز حزب وحدت کے دفتر جاتے ھوئے سید انوری کے چیک پوسٹ کے قریب سے لاپتہ ھوئے۔

سالوں بعد کابل کے ہفت روزہ "پیک دیدہ بان” سے وابستہ ایک ھزارہ صحافی جناب فہیمی جو خود سید انوری کے ہاتھوں اغوا اور سنگلاخ کے عقوبت خانوں میں بدترین ٹارچر سے گذرے تھے، نے انکشاف کیا ھے شادروان محمدعیسیٰ غرجستانی، خود سید انوری کے حکم سے اغوا اور بدترین تشدد کے بعد شہید کردئے گئے ہیں (تفصیلات کیلئے کابل پریس کے مضمون "بازخوانی جنایت ھا” میں دیکھیئے)۔ اس تلخ حقیقت کی تائید شادروان کے بیٹے تیمور غرجستانی بھی کرتے ہیں۔ انکے مطابق انکے چچازاد بھائی، سید انوری کے ایک سابقہ باڈی گارڈ کے حوالے سے کہتا ھے کہ "ہم نے سیدانوری کے حکم پر محمد عیسیٰ غرجستانی کو زبردستی اٹھا کر اسکے مرکز لے گئے۔ سید انوری نے ان سے کئی سوالات کئے جنکے جوابات سنکر اس نے وہی غرجستانی پر تشدد کرنا شروع کردیا۔ سخت تشدد کے بعد سید انوری نے انہیں نامعلوم جگہ پہنچانے کا حکم دیدیا”۔ بعد کی تفصلات وہی متذکرہ بالا ھے۔

بلاشبہ شادروان محمدعیسیٰ غرجستانی ھزارہ قوم کے قیمتی علمی اثاثہ تھے۔ انکی ناگہانی مفقودالاثری ایک ناقابل تلافی نقصان ھے جسکا ازالہ آسان نہیں۔ وہ اگر زندہ ھوتے یقیناً مزید گراں قدر کتابیں قارئین تک پہنچتی۔ روحش شاد۔

نوٹ:
1۔ ظاہر شاہ کے دور میں درج ذیل ٹیکسیز ھزارہ جات پر نافذ تھیں:
الف۔ روغن کٹہ پاوی: ہر چوپایہ یہاں تک کے نر بھیڑ، بکرے، بیل، گھوڑے، گدھے، خچر کے بدلے ایک مقررہ مقدار میں سالانہ اصلی گھی جمع کیجاتی۔
ب۔ شاخ پولی: تمام چوپایوں پر ٹیکس
پ۔ خس بُری: آبی و بارانی زمینوں پر سالانہ فی جریب (ایکڑ) ٹیکس چاہے زیرکاشت ہو کے نہ ہو۔
ت۔ کلہ پولی: ہر فرد یہاں تک کے شیرخوار پر ٹیکس
ج۔ گندم گودام: یہ ایک قسم کا لوکل ٹیکس تھا فی خاروار گندم (فی من)
د۔ سرچربی ملکہ: شاہی خاندان کا ٹیکس
ٹفصیلات کیلئے استاد بصیر دولت آبادی کی کتاب احیای ھویت ص 212 تا 216 ملاحظہ ہو

اس مضمون کی تیاری میں استاد غفورربانی کی کتاب "مجموعہ مقالہ ھا” جلد دوم، کابل پریس میں جناب بصیر آھنگ کے آرٹیکل "باز خوانی جنایتھا” اور شادروان کے بڑے صاحبزادہ تیمور غرجستانی کی فراہم کردہ معلومات سے زیادہ مدد لی گئی جس کیلئے انکا بے حد شکریہ۔


Join the Conversation