شہید چیئرمین حسین علی یوسفی
تحریر: لیاقت علی
"میں قوم دوست ہوں اور قوم دوست ہی رہوں گا اور دنیا کی کسی کتاب میں قوم دوستی کفر اور جرم نہیں. میری قوم دوستی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں دوسری اقوام کو ناپسند کرتا ہوں بلکہ یہ خداوند عالم کی طرف سے میری شناخت ہے اور میں اس شناخت کے ساتھ جینا اور مرنا چاہتا ہوں”
یوں شہید حسین علی یوسفی آخری دم تک اسی نظریے پر قائم رہے مگر انکی قوم دوستیی انسانیت کی راہ میں کبھی بھی روکاٹ نہیں بنی. وہ نہ صرف انتہائی باکمال و باوقار شخصیت اور خداداد صلاحیت کے مالک تھے بلکہ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے ہزارگی زبان میں ڈراموں کی داغ بیل ڈالی جن میں ہزارگی معاشرے کی خامیوں کی موثر انداز میں نشاندہی کی. ہزارگی زبان میں اشعار لکھے. کئی سالوں تک ریڈیو پاکستان کوئٹہ میں ہزارگی پروگرام میں پیوند لالئی کے نام سے صداکار رہے. ان کی شخصیت کے کئی پہلو تھے. وہ سیاست دان ہونے کے ساته ساته ڈرامہ نگار، شاعر اور مصنف بھی تھے. تین ہزار سے زائد ھزارگی ضرب الامثال جمع کیے اور انہیں اردو اور انگریزی زبانوں میں ترجمہ کیا۔ طنز و مزاح میں اپنی مثال آپ تھے. ہزارہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر رہے. 1983 میں کونسلر بنے. تنظیم نسل نو ھزارہ کے پلیٹ فارم سے قومی شناخت کو فروغ دینے کی جدوجہد کی. آخری وقت تک ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیرمین رہے ۔ وہ بہترین مقرر تھے.
شہید یوسفی اپنی تقاریر میں برجستہ جملوں کے استعمال سے مزاح کا ماحول پیدا کرتے تھے. ان کے اسٹیج پر آتے ہی حاضرین کے لبوں پر مسکراہٹ اور دلوں میں خوشی کی لہر سی دوڑ جاتی تھی جس سے سامعین کے ذہنوں میں سوچ کے نئے زاویے بن جاتے تھے. ان کی شخصیت کا سب سے خوبصورت پہلو یہ تھا کہ وہ غرور اور تکبّر نہیں رکھتے تھے. میری ان سے رفاقت اور آشنائی کے مہ و سال میں کوئی بهی ایسا وقت نہیں گزرا جب انہوں نے اچھائی کرنے کا عملی درس نہ دیا ہو. وہ انتہائی شفیق محبت کرنے والے انسان تھے. ان کی شخصیت میں عجیب سی کشش تھی. ایک بار جب کسی سے ملتے تھے تو اسے ہمیشہ کے لیے اپنا گرویدہ بنا لیتے تهے. متوسط گھرانے سے تعلق رکهنے والے شہید یوسفی نے اپنی محنت سے ایک بلند معاشرتی مقام بنایا. انہوں نے ہمیشہ اپنی ذات سے زیادہ اپنے نظریات کو مقدم سمجھا. خود نمائی و اناپرستی سے نا آشنا تهے. میل ملاقاتوں اور نجی محفلوں میں کبهی بهی کاروباری معاملات کے بارے میں بات چیت نہیں کرتے تھے. انکا پسندیدہ موضوع ہزارگی زبان، تاریخ اور ثقافت تھا سو وہ اسی کو اہمیت دیتے تھے.
ایک مرتبہ میں نے اس سے ملک سے باہر جانے پر بات کی تو بات کو گول مول کر لیا البتہ جاتے وقت کہا کہ اگر ہر شخص باہر جاتا ہے تو ہر شخص کے حصے کا کام کون کرے گا؟ سخت ترین حالات کا مقابلہ کیا. حکومت کی طرف سے سیکیورٹی کی پیشکش کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اگر میں سیکورٹی لے لیتا ہوں تو عام لوگوں میں خوف کی لہر دوڑ جائے گی اور وہ خوف کی حالت میں زندگی گزاریں گے. کھرے اور حق گو انسان تھے. میزان چوک پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ شہر، اس کی مارکیٹیں، سڑکیں، عمارتیں ایک دن میں نہیں بنی ہیں اس میں ھمارا خون پسینہ اور ھمارے آبا و اجداد کی محنت شامل ہے. اپنی تقاریر میں واشگاف انداز میں کہتے کہ ھم نہ کسی کے مذہبی عقائد کے خلاف ہیں نہ کسی قوم کے ساته ناانصافی پر مبنی رویے کو درست سمجھتے ہیں. ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشتگردی کی روک تھام، امن و امان کی بحالی اور اپنے شہریوں کی حفاظت کرے. بہ صورت دیگر یہ ایک کامیاب ریاست نہیں ہوگی. وہ قول کے پکے تھے اور زبان و بیان پر کمال کی مہارت رکهتے تهے. قلم کی نوک ان کی گرفت میں ہوتی. لکھتے وقت احتیاط کا دامن ہرگز نہیں چهوڑتے اور دوسروں کی دل آزاری سے ہمیشہ اجتناب برتتے. ان کی زبان سے ادا ہونے والے کلمات میں برائی کے الفاظ ناپید ہوتے تهے.
شہید یوسفی بہت ہی خوبصورت، شیرین اور دلچسپ الفاظ بولتے اور لکھتے تھے. رجعتی فکر کو ناپسند کرتے تھے. دین، مذہب اور عقیدے کو انسان کے ذاتی معاملات سمجھتے تھے. وہ مذہب کے خلاف یا دین سے بیزار نہیں تھے البتہ ان لوگوں سے ضرور بیزار تھے جو دین کے لبادے میں اغیار کے غلام اور اپنی ثقافت، زبان اور شناخت سے انکاری تھے. انہیں کسی نے بھی مسجد میں آتے جاتے نہیں دیکھا مگر بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ نہ وہ کسی کی عبادت میں نقص نکالتے نہ کسی کو اپنی عبادت میں مداخلت کی اجازت دیتے تهے. وہ دکھاوے کی عبادت کے سخت خلاف تھے. دنیا کے بہت سے ممالک کے دورے کیے. غیر ملکی افراد اور تنظیموں کو ہزارہ قوم کی تاریخ پر لیکچرز دیے. کبهی بری صحبت میں نہیں رہے. کسی کو سگریٹ پیتے دیکھتے تو منع کرتے تھے. معاشرتی مسائل و دیگر موضوعات پر تنقید اور مخالفت کرنے کے باوجود انکے مخالفین نے ان کی شخصیت پر انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کی. حالات کی سنگینی اور نتائج سے عوام کو ہمیشہ باخبر رکھا مگر مایوسی کی بات نہیں کرتے تھے قوم کا مورال ھمیشہ بلند رکھا.
تاہم کوئٹہ کے امن دشمن قوتوں کے ایما پر امن و سلامتی کے خواہاں حسین علی یوسفی 26 جنوری 2009 کو کوئٹہ کی مصروف شاہراہ جناح روڈ پر اپنے دفتر کے سامنے گاڑی سے اترتے ہوئے بہیمانہ طریقے سے شہید کردیے گئے. ان کو صوبے کی تاریخ کے ایک بڑے اجتماع، جس میں تمام اقوام کے نمائندے موجود تھے، کی موجودگی میں ہزارہ قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا. انہیں ہم سے جدا کر دیا گیا مگر ان کے افکار زندہ ہیں، ان کے روشن کردہ چراغ رہنما تابندہ ہیں. ہزارگی زبان، تاریخ اور ثقافت پر جو کچه بهی لکها جائے گا ان کے نام کے بغیر نامکمل ہو گا.
تمہیں مٹی میں تو ہم نے سلا دیا