(کمانڈر احمد شاہ مسعود قتل کیس انکوائری کمیشن رپورٹ قسط نمبر20)
ترجمہ: اسحاق محمدی
1992 تا 1995 کے دوران کابل میں مجاھدین تنظیموں کے درمیان ھونے والی خوفناک جنگوں میں ایران کا کردار نمایاں تھا۔ طالبان کے ظہور کے وقت جسکی کی تشکیل میں برطانیہ اور پاکستان پیش پیش تھے، ایران، افغانستان میں اپنے مفادات کو محفوظ بنانے پر جتا ھوا تھا۔ ایرانی خفیہ ایجنسی، اطلاعات اور سپاہ پاسداران، وزارت خارجہ سے ملکر دو مختلیف جہتوں سے دو مختلیف پالیسیوں یعنی "جنگ اور تخریب (سبوٹیج) پر عمل پیرا تھے۔
اطلاعات اور سپاہ کے پروردہ محمد اکبری اور مصطفی کاظمی کو برھان الدین ربانی کی حکومت کے قریب رکھے گئے تھے جبکہ وزارت خارجہ، پاکستان اور ازبکستان کی رضامندی سے پروفیسر صبغت اللہ مجددی کی قیادت میں حزب وحدت، جنرال دوستم کی جنبش ملی، گلبدین حکمتیار کی حزب اسلامی اور مجددی کی جبھہ نجات ملی کے ملاپ سے "شوری ھماھنگی” تشکیل دینے کو کوشش کررھا تھا جسکا مقصد ربانی حکومت کی سرنگونی اور احمد شاہ مسعود کی فوجی صلاحیتوں کو کمزور کرانا تھا۔ بعد کے مرحلہ میں تحریک طالبان کے نام سے ایک طاقتور تنظیم کی تشکیل پر ایران فوری طورپر آگے بڑھا اور ربانی حکومت کے خاتمے کے بعد کے دور میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے پاکستان و برطانیہ سے معاملہ کرنے لگا۔ ایران نے اپنے حسن نیت کو ثابت کرنے کیلئے حزب وحدت کے سربراہ عبدلعلی مزاری کو تحفتاً دینے کا فیصیلہ کیا اور یوں انکی زندگی طالبان کے ظہور کے ساتھ ختم ھونے جارہی تھی۔
حوت 1374(جون1995) سے قبل احمد شاہ مسعود کے زیرنگرانی کام کرنے والی خفیہ تنظیم "ڈی- ایکس” نے یہ خبردی کہ:
” ایران اور طالبان نمایندے قندھار میں بات چیت میں مصروف ہیں۔ وزارت خارجہ کے بھیس میں ‘اطلاعات” کے لوگ یہ مذاکرات انجما دے رہے ہیں۔ اب تک طالبان سے مذاکرات کے تین ادوار مکمل ھوچکے ہیں۔ اسلام آباد میں تعینات ایرانی سفیر، آئی ایس آئی سے قریبی تعلق رکھنے والے مولوی جلیل سے بھی مل چکا ھے، یہاں تک کہ افغان خلق پارٹی دھڑہ جو، اب تحریک طالبان کا حصہ ھے کے اراکین تہران یاترا بھی کرچکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان ملاقاتوں کا محور عبدلعلی مزاری کی حوالگی اور اس کے بدلے میں ایران کو دی جانے والی مراعات کی ہیں”۔
احمد شاہ مسعود نے ان خفیہ رپورٹوں کو دیکھنے کے بعد عبدلعلی مزاری کی جان کو لاحق خطرات سے متعلق وارننگ کے پیغامات "ھاٹ لاین” کے ذریعے بھیجدی لیکن حیرت انگیز طورپر حزب وحدت کی طرف سے منفی جواب ملا جس سے صاف دیکھائی دے رہا تھا کہ ایرانی خفیہ ایجنسیاں، حزب وحدت کو یہ فریب دینے میں کامیاب رہ تھی کہ طالبان سے اتحاد کرنے میں ھی انکی بھلائی ھے۔ احمد شاہ مسعود اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ استاد مزاری، ایرانی خفیہ ایجنسیوں کے اس پیچیدہ کھیل میں بری طرح سے پھنس چکے تھے اور کوئی واضح لایحہ عمل اختیار کرنے میں تذبذب کا شکار تھے۔
احمد شاہ مسعود اپنے خفیہ افراد کے توسط، استاد مزاری اور ایرانی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان پُرتشنج ملاقاتوں سے بھی با خبر تھا مثلاً سنبلہ 1373( ستمبر1994) کے واقعہ کے بعد جس میں ایران کی شہہ پرمحمد اکبری نے استاد مزاری کے خلاف بغاوت کرکے حزب وحدت کو دو حصوم میں تقسیم کردیا تھا، ایک میٹینگ، جس میں محمد اکبری کا نمایندہ طاہر طوفان، استاد مزاری کا نمایندہ انکے دفتر کا انچارج سید علی، ایرانی خفیہ ایجنسی کی طرف سے مسٹرمرتضوی اور حزب اسلامی کا نمایندہ (جو در اصل احمد شاہ مسعود کا خفیہ آدمی تھا) شریک تھے، کے دوران مرتضوی نے اپنی طرف سے گفتگو کا آغاز کرتے ھوے پہلے ایک میز پر خمینی کی تصویر اور ایک جھنڈی رکھتے ھوے گویا ھوے کہ:
"اس امام برحق کی برکت سے ۔ ۔ ۔”
ابھی وہ اپنی بات ختم نہ کر پایا تھا کہ اچانک استاد مزاری جو ایک طرف بالیشت پر ٹیک کر بیٹھے ھوے تھے، اُٹھ گئے خمینی کی تصویر اور جھنڈی کو غصے سے اٹھا کر ایک طرف پھینکتے ھوے بول پڑے:
"یہ سب باتیں اپنے پاس رکھیئے، تم لوگ (ایرانی) ہی ان اختلافات کے پس پردہ محرک ھو اور تم لوگ ہی ان سب بربادیوں کے ذمہ دار”
مرتضوی شدید طیش کی حالت میں اُٹھ کر چلا گیا۔ بلاتردید اس کا یوں میٹینگ سے چلے جانا، استاد مزاری کیلئے آخری وارننگ تھی۔
ایرانی خفیہ ایجنسیوں کی نظر میں ایران کا مفاد اسی میں تھا کہ وہ حزب وحدت کو دھڑوں میں تقسیم کرکے انکے درمیان تشنجات کو وسعت دیں اورپھرانکی قومی قیادت کو ختم کر کے انکی جگہ ولایت فقیہہ کے حامی شیعہ ملاوں کو آگے لے آیں، جس طرح پاکستان نے افغانستان کے جنوبی اور مشرقی حصوں سے تمام قومی قیادت کو ختم کرکے اپنی من پسند قیادت لائی تھی۔
کابل کی طالبان کے ہاتھوں تسخیر سے قبل استاد مزاری کی ایرانیوں کے خلاف سرکشی، ایران- طالبان کے درمیان بڑھتی قربتوں کی صورت آشکارا ھورہی تھی اور جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جاچکا ھے کہ حوت 1374 (فروری 1995) سے قبل ایران اور طالبان کے درمیان استاد مزاری کے جسمانی خاتمے کے واضح اشارے مل رہے تھے۔
طالبان کی طرف سے کابل پر حملوں میں شدت لانے اور پھر استاد مزاری سے انکے اتحاد کی خبروں نے ڈی-ایکس کی گزشتہ رپورٹوں پر مہر تصدیق ثابت کردی۔ چنانچہ احمد شاہ مسعود نے پیش دستی کرتے ھوے حزب وحدت پر چڑھائی کردی اور انہیں مغربی کابل سے بے دخل کردیا۔ استاد مزاری ایک طے شدہ ایرانی ایجنڈے کے مطابق طالبان کے حوالے کردئے گئے۔
ڈی-ایکس: دوسرا رپورٹ۔ 1998
مقام: ایرانی بزنس سینٹر، لینن روڑ عشق آباد ترکمانستان
ایک میٹینگ میں ترکمانستان کے وزیر پیٹرولیم مسٹرالیاس، ایرانی کمپنیوں اکال نوران اور نفتِ بابہ جان کے نمایندے اور افغانی سرمایہ کار کے روپ میں ڈی۔ایکس ایجنٹ، شریک تھے۔ میٹینگ کا ایجنڈہ سرحدی مقامات میں ھونے والی تیل کی سمگلینگ، تھا۔ وھاں یہ بات چل رہی تھی کہ ایرانی تاجر(حکومت کی مرضی کے بغیر) اتنی بھاری مقدار میں عراقی تیل کیونکر اور کیسے طالبان کے ہاتھوں فروخت کرپا رہے ہیں، اس دوران اچانک ترکمانی وزیر پیٹرولیم مسٹر الیاس نے اکال نوران کمپنی کے نمایندے کو مخاطب کرتے ھوے کہا کہ "ایران، افغانستان کی جنگ کو اس لئے طول دے رہا ھے تاکہ ھمارا ملک اقتصادی فایدوں سے محروم رھے۔ پہلے اس نے استاد ربانی سے اتحاد کرلیا اوراب انکے مخالفین سے ہاتھ ملا لیا ھے۔ ھمیں بخوبی علم ھے کہ تمھارے کیا مقاصد ہیں۔ در اصل ایران، افغانستان کے اندر جنگ کو شعلہ ور رکھکر اپنی گیس پائپ لاین پاکستان اور ھندوستان تک بچھانا چاہتا ھے”۔ ڈی۔ایکس ایجنٹ نے ایرانیوں کے جواب کے بارے میں نہیں بتایا ھے۔
تہران میں طالبان ممبر کے روپ میں ڈی۔ایکس ایجنٹس ، ایرانی خفیہ ایجنسی اطلاعات کے ایجنٹ "حسینی” سے استاد مزاری کی طالبان حوالگی کی بابت مزید شواھد لینے کے مشن پر تھا۔ در اصل احمد شاہ مسعود اس "ترپ کے پتے” سے فایدہ اٹھانا چا ہتا تھا کیونکہ اس وقت ایران، افغانستان میں طالبان مخالف لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف مایل کرنے میں کامیاب ھوا تھا اور مزید لوگ آرہے تھے اور یوں باھمی میل ملاپ کے مواقع روز ملتے تھے۔ ایسی ھی ایک ملاقات کے دوران ڈی۔ایکس ایجنٹ، استاد مزاری کی طالبان حوالگی کے بارے میں یہ اہم راز اگلوانے میں کامیاب ھوگیا۔ یہ ملاقات تہران کے گرانڈ ھوٹل میں جون2001 کو ھوئی جسکی تفصیل درج ذیل ھے:
"مسٹر حسینی ایک ترک نژاد، ایرانی خفیہ ایجنسی "اطلاعات شعبہ ضد جاسوسی” کا سربراہ تھا جو صدر سید محمد خاتمی حکومت کے نایب وزیر براے اطلاعات مسٹر نوری کے ساتھ ڈیوٹی کر رھا تھا۔ اس روز وہ ایک ھاف وایئٹ 88 ماڈل مرسیڈیز بینز میں ھوٹل آیا تھا۔ ھوٹل کیفٹیریا میں ملاقات کے وقت پشاور میں تعینات ایرانی قونصل جنرل آقای وحدتی بھی موجود تھا۔ گفتگو کے دوران مسٹر حسینی نے طالبان قیادت سے گلہ کرتے ھوے کہا کہ انہوں نے قندھار میں کئے گئےاپنے وعدوں کا پاس نہیں کیا اور ایرانی مفادات کا خیال نہیں رکھا، حالانکہ ایران نے وعدہ کے مطابق مزاری انکے حوالے کردیا تھا۔ اس نے مزید کہا کہ اس سارے معاملے میں ھم اصل قصوروار پاکستان کو سمجھتے ہیں”۔
فارسی سورس
http://kabulpress.org/my/spip.php?article56254