شہید حسین علی یوسفی: ایک ھمہ صفت شخصیت!

تحریر : اسحاق محمدی
the-afghan-canadian-community-of-ottawa-held-a-vigil-saturda1شہید حسین علی یوسفی ایک متوازن اور ھمہ صفت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک غریب گھرانہ کے فرد تھے لہذا ایک روایت پسند معاشرے میں زندگی کے تمام شعبوں میں اسے محتاط انداز میں اور اپنے زور بازو پر جہد مسلسل سے آگے بڑھنا تھا۔ وقت اور حالات نے ثابت کردیا کہ وہ واقعی اپنے بہتر کردار سازی اور نہ روکنے والے عمل سے وہ اکثر شعبوں کامیاب رھے۔ نہایت مشکل اقتصادی حالات میں اس نے بلوچستان یونیورسٹی سے اپنی تعلیم اس طرح مکمل کی کہ ھزارہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر کی حیثیت سے وہ ھزارہ سماج میں اپنی ایک پہچان بنانے میں کامیاب رہے تھے۔ تنظیم اور بعد ازآں اتحادیہ میں انکا شمار صف اول کے افراد میں ھوتا تھا۔ اسی پس منظر میں جب وہ ایران نواز ملاوں کے قید سے رھائی پاکر کویٹہ واپس آگئے تب تک انکی ایک مسلمہ حیثیت بن گئی تھی۔ انھوں نے1983 کے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کا جرات مندانہ فیصلہ ان حالات میں کیا کہ ایران کے اسلامی انقلاب سے متاثر اور انکے حمایت یافتہ ملا، اپنے کسی بھی سیاسی مخالفین کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، ضرورت پڑنے پر وہ ان پر براہ راست "ضد ولایت فقہہ” کا لیبل کر انہیں دیوار سے لگا سکتےتھے۔ شہید چیرمین کا ایک اور جرم یہ بھی تھا کہ اس نے فرسودہ معاشرتی روایات کو للکارنے کی جرات کی تھی، لہذا بہت جلد ایران نواز سیاسی ملا، "دولت مند با اثر سر چندے” اور ان سے جڑا روایتی ملاوں کا ایک فطری اتحاد انکے خلاف وجود میں آگیا۔ یوں کویٹہ میں آباد ھزارہ قوم کی سایسی تاریخ میں پہلی بار ھزارہ گی نیشنل ازم کا براہ راست آمنا سامنا سیاسی اسلام کی سرکردگی میں قایم اتحاد سےھوا۔
ac500a85-cc06-4dbd-9052-f7fe06f10f56شہید یوسفی سے میری، سلام دعا کی حد تک جان پہچان 1980 کے دوران سایئنس کالج میں داخلے سے تھی۔ بعد از آں جب میں ھزارہ سٹوڈنٹس فیدریشن کا باقاعدہ ممبربنا تو یہ قربتیں، دوستی تک آگے بڑھی۔ اسی تعلق کے بنا پر شہید یوسفی نے اعتماد کرتے ھوے مجھے اپنے الیکشن کمپین کا انچارج بنا دیا جبکہ مخالف کیمپ کے الیکشن کمپین کا انچارج، آئی ایس او کے اس وقت کا صدر قیوم سعیدی تھا جو میرا کلاس فیلو اور اس وقت تک دوست بھی تھا۔ مجھے یاد ھے کہ اس دوران کئی بار جب ھمارا آمنا سامنا ھوا توھر بار اس نے کہا کہ "اُنکے امیدوار کی فتح یقینی ھے صرف اعلان ھونا باقی ھے تم لوگ بلا وجہ دیوار سے سر ٹکراتے ھو”۔ مجھے بخوبی یاد ھے ھمارے پوسٹر” ای خفتہ ز جا خیز کہ زمان سفر است” کے جواب میں ملاوں نے فوراً "تجربہ بہترین استاد است (مولا علیؑ)” کے پوسٹرز نکالے تھے۔ خیرحالات کی نزاکت کے پیش نظرھم نے یہ اسٹریٹیجی بنائی کہ ایک واضح پروگرام کے ساتھ سب سے پہلے حلقے کے جوانوں سے رابطے کئے جایں اور پھر انکو ساتھ ملا کر "آغیلی میٹینگز” کے ذریعے عوام تک براہ راست اپنے پروگرامز پہنچائی جایں۔ پہلے پہل جواںوں سے رابطے میں قدرے دقت ھوئی کہ بعض اوقات ایک فرد کو قایل کرنے میں کئی کئی گھنٹے لگے لیکن یہ مرحلہ کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد اور جوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملانے سے دوسرے مرحلے یعنی آغیلی میٹنگزمیں یوں آسانی ھوئی کہ ھر میٹینگز میں ھمارے ساتھ پہلے ھی جوانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد شامل ھوتی جس سے اس تاثرکو ختم کرنے میں کامیابی ملی کہ ھماری ٹیم کمزورھے۔

واضح پالیسی، عوام تک براہ راست رسائی اور اچھی ٹیم ورک کیوجہ سے ھم سیاسی ملاوں کو انکے روایتی اتحادیوں سمیت 33 ووٹوں سے شکست دینے میں کامیاب رھے تھے جو کہ نشنلیسٹ سیاست کیلئے ایک اچھی شروعات تھی، لیکن تنظیم کے چیرمین غلام علی حیدری کی طرف سے الیکشن کمپین کے دوران جب تمام ھزارہ نیشنلیسٹ مخالف قوتیں ھمارے خلاف صف آراء تھیں، یہ کہکر کہ "تنظیم سیاست میں حصہ نہیں لیتی” تمام معاملات سے لا تعلقی کم از کم اس وقت میری سمجھ سے بالاتر تھی لیکن آگے چلکر پتہ چلا کہ تنظیم میں کوئی اس سے آگے بڑھے یہ موصوف سے برداشت نہیں ھوسکتا اور اس مقصد کیلیے وہ تمام منفی حربے استعمال کرنے سے بھی نہیں جھجھکتا۔ یہاں یہ بات بتانی ضروری ھے کہ 80 کی دھائی کے وسط کے دوران جب ایچ ایس ایف جوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد روزانہ کی بنیاد پر تنظیم میں ڈیرہ ڈالے رہتی، شہید یوسفی نے چند ھمخیال دوستوں کے ساتھ یہ تجویز دی کہ اب حالات کی نزاکت کو دیکھتے ھوے ایک واضح سیاسی لایحہ عمل کے ساتھ میدان میں آنا چاہییے لیکن حیدری نے نہ صرف اسکی شدید مخالفت کی بلکہ وہ شہید یوسفی کے خلاف منفی ہتھکنڈوں پر اتر ایا جس سے دل برداشتہ ھوکروہ وقتی طور پر سیاست سے دور ھوگئے۔ اس خلا کےتباہ کن اثرات اب تک ھزارہ قوم میں نظر آرھے ہیں اور وہ "چلتا ھوں تھوڑی دور، ھر رہگذر کے ساتھ” والی کیفیت سے دوچارھے۔ لیکن یہ یاد رھے کہ بعد میں کئی دفعہ موصوف کابینہ کی منظوری کی زحمت گوارا کیے بغیر اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرادیتا اور بعد ازآں پوری تنظیم کو اسکی تمام وسایل سمیت میدان میں جونک دیتا۔ خیر اس بابت ایک تفصیلی مضمون لکھنے کا ارادہ ھے۔

ھر کام کو چیلینج سمجھ کر اسے پروفیشنل انداز میں لینے کی صفت رکھنے کے باعث بزنس کے میدان میں بھی وہ کامیاب رہے۔ "الفلاح ٹریول” کو خسارے سے نکال کراسے صف اول کا کماؤ ادارہ بنا دیا، اس دوران تین ھزار سے زاید ھزارہ گی محاورات کا خزانہ جمع کرانے کے علاوہ درجنوں اصلاحی ڈرامے لکھے، اسکی ھدایات دیں اور اکثر میں اداکاری کے جوھر بھی دکھاے۔ بزچینی جیسی کلاسیکل فولکلوریک ھزارہ گی داستان کے مکالمے لکھے اور اس میں یادگار صداکاری کیں جیسے گذشتہ سال ایک بین الاقوامی ایواڑ بھی دیا گیاھے۔

سالوں بعد جب سب ھمخیال دوست ھزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی شکل میں یکجا ھویں تو شہید یوسفی کی رگوں میں جیسے بجلی دوڑنے لگی۔ سخت ترین حالات میں جب ھزارہ قوم شدید ترین دہشت گردی سے دوچار تھی، وہ ھر وقت ھر جگہ موجود ھوتے، گرمی ھو کہ سردی کبھی کسی سانحے میں پیچھے نہ رہتے، بلاشبہ اس دوران درجنوں احتجاجی جلسے جلوس، درجنوں پریس کانفرنسیز، سیاسی جماعتوں سے رابطے اور ملاقاتیں ھویئں اور ان سب میں شہید چیرمین پیش پیش تھے انہی جلسے جلوسوں میں انکی بعض یاد گار تقریریں اب ھزارہ تاریخ کا حصہ ہیں اسی لئے وہ ھزارہ قوم کے دلوں کے دھڑکن بن گئے تھے۔ گویا وہ ھر میدان میں ایک کامیاب انسان تھے خاص طور پر سیاست میں اپنی دوراندیشی، معاملہ فہمی اور جرات فیصلہ رکھنے کے اوصاف کی وجہ سے وہ اس میدان کے شہسوار تھے اور اسی لئے اب انکا نام ھزارہ تاریخ کے ان شہیدوں میں شامل ہیں جس میں رہبر شہید بابہ مزاری کا اسم گرامی سب سے اوپر ہیں۔ بابہ مزاری کے بعد وہ واحد ھزارہ رہنما تھے جنکی شہادت پر دنیا بھر میں بسنے والے ھزارہ زن مرد اپنے شیر خوار بچوں کے ساتھ احتجاج کیلئے نکل پڑیں۔ یاداش گرامی باد۔


Join the Conversation