تحریر : اسحاق محمدی
10 جنوری 2013 کو علمدار روڑ سنوکرکلب کے دھرے دہشتگردانہ حملے میں 100 کے قریب بےگناہ لوگ ھلاک اور 200 سے زاید زخمی ھوگئے تھے جن میں سے درجنوں اب عمر بھر کیلئے معذور ھوچکے ہیں۔ "تنگ آمد بجنگ آمد” کے مصداق مسلسل دہشت گردانہ حملوں سے تنگ، ھزارہ قوم کے افراد زن و مرد، پیر وجوان یہاں تک کے اپنے شیر خوار بچوں کے ساتھ اپنے پیاروں کی جلے کٹے لاشوں کے ساتھ کویٹہ کی یخ بستہ سردی منفی 10 درجہ سینٹی گریڈ پر احتجاجاً علمدار روڑ اور گلستان روڑ دھرنے پر بیٹھ گئے۔ حسب عادت بے حس خاص طور پر اسلم ریسانی جیسا بےشرمی کی آخری حد تک بے حس حکمراں اس سوچ کے ساتھ کہ جلد ھی یہ لوگ سخت سردی سے تنگ آکر اپنے دھرنے ختم کرنے پر مجبور ھوجاینگے اور پھر "اللہ اللہ خیر صلاح”۔ لیکن یہ انکی بھول تھی، مسلسل دہشت گردی کی زد میں آنے والی ھزارہ قوم کے حوصلے فولاد سے بھی زیادہ سخت اور ہمالیہ سے بھی زیادہ بلند تھے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ دھرنے کے شرکاء کی تعداد میں کمی کی بجاے اضافہ ھوتی گئی، اورسیسز ھزارہ بھی اپنے اپنے شہروں میں قایم پاکستانی مشنز (سفارتخانے، قونصلخانے) کے سامنے دھرنے پر بیٹھنے لگے، ان دھرنوں کی خبریں پرنٹ، الیکٹرونیک اور سوشل میڈیاز پرآنے لگیں، ھزارہ قوم کی مظلومیت سے متاثر ھوکر پاکستان کے دیگر شہروں کے انسانوں کی ضمیر بھی جاگ اٹھی بلاتفریق رنگ و نسل و جنس و عقیدہ اپنے اپنے شہروں، قصبوں میں ھزارہ قوم سے اظہار یکجہتی کیلئے دھرنے پر بیٹھتے گئے۔
اگلے 72 گھنٹوں کے دوران پورا پاکستان تقریباً جام ھو چکا تھا، دنیا کے 20 ممالک کے 30 سے زاید شہروں میں ھزاروں لوگ پاکستانی مشنز کے سامنے دھرنے دے رکھے تھے۔ یاد رہے کہ چند نو وارد مذہبی عناصراس دھرنے کی کریڈیٹ لینے کی کوشش کررھے تھے لیکن بعد کے انتخابی سیاست میں انکی عوامی مقبولیت کا بھانڑہ پھوڑدیا کہ یہ سب کچھ انکی وسہ سے نہیں بلکہ ھزارہ قوم کی بے مثال جرات، ھمت، یکجہتی اور مظلومیت کی وجہ سے ھی یہ ممکن ھوئی کہ شدید سیاسی، سفارتی اور اخلاقی دباؤ سے مجبور ھوکر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے بے حس رنگیلے اسلم ریسانی کی حکومت ختم کرکے گورنر راج نافذ کردی اور ساتھ ھی دہشت گرد قاتلوں کو کیفر کردار تک پہچانے کی یقین دھانی بھی کرادی۔ ھزارہ قوم نے ان حکومتی اقدامات کے بعد دھرنے ختم کرکے اپنے پیاروں کی تدفین کرادی۔ لیکن پاکستانی ریاست، تین سال کا طویل عرصہ گزرنے کے با وجود اپنے وعدوں کو نبھانے میں قطعی طور پر ناکام رھی ھے۔ نہ تو اس خونین دہشت گرد سانحہ کے براہ راست ملزمان یعنی منصوبہ ساز (ماسٹر ماینڈ)، فاینانسرز اور عمل درامد کرنے والے کردار گرفتار ھوئے ہیں، نہ ھی دہشت گردی کی وارداتیں رک گئی ہیں اور نہ ھی حکومتی اداروں میں کھالی بھیڑوں کا پتہ چل سکا ھے۔ حالانکہ بعد میں یہ حقیقت واضح ھوگئی تھی کہ یہ دہشت گرد حملے در اصل جولائی 2012 کے دوران ھونے تھے جسکے کم از کم ایک خود کش حملہ آور کردار کو پولیس نے وقوعہ سے پہلےگرفتار کرلی تھی۔ لیکن ابھی تک کئی اھم سوالات پردہ راز میں ہیں جیسے:
۔ جب پولیس اور متعلقہ اداروں کو اس قسم کے دہشت گرد حملے کے منصوبے کا علم ھوا تو انھوں نے اسکی روک تھام کے ضمن میں مناسب تدابیری اقدامات کیوں نہیں اٹھایں؟
۔ اقدامات نہ کرنے کے ذمہ داران کون کون تھے اور انکے دہشت گردوں سے تعلقات کی نوعیت کیا تھے؟
۔ آیا وہ دہشت گردوں سے ملے ھوے تھے ؟ اگر ھاں
۔ تو کیا وہ عقیدتی لحاظ سے ان سے متاثر تھے یا پھر لالچ کیوجہ سے؟
۔ انکے خلاف کیا انظباطی کاروایاں ھویں اگر نہیں ھویں تو کیوں؟
۔ اب یہ کالی بھیڑیں کن پوسٹوں پر ہیں ؟ اور ان جیسے دیگر سوالات
اس ضمن مین کئی اھم سوالات ھزارہ قوم سے بھی متعلق ہیں جیسے:
۔ آیا ھزارہ قوم کے بعض لوگوں (شیعہ کانفرنس وغیرہ) کو اس سازشی منصوبہ کے متعلق معلومات دی گئی تھی؟
۔ اگر معلومات دی گئی تھی تو انھوں نے اپنے طور پر کیا حفاظتی اقدامات کئے؟
یہ سوال اسلیے بھی اھم ھے کہ پاکستانی اداروں کی دہشت گردوں سے ملاپ، غیر ذمہ دارانہ روے یا غفلت عام سی بات بن گئی ھے لیکن اگر اس قسم کی غلفت ھمارے اپنے لوگ کریں اور کوئی بازپرسی نہ ھو تو پھر ھم میں سے کسی کو بھی دوسروں سے شکایت کرنے کا حق نہیں۔ مجھے بخوبی یاد ھے کہ "امام بارگاہ ھزارہ کلان” کے خود کش حملے سے قبل انتظامیہ نے شیعہ کانفرنس اورنماز جمعہ انتظامیہ (پیش امام، امام بارگاہ انتظامیہ) کو کسی دہشت گرد حملے کے امکان کے بارے میں تحریری طور پر اطلاع دی تھی اب اگر باقی تمام امکانات کو رد بھی کیا جاے تو پھر بھی انکی مجرمانہ غفلت عیاں ھوجاتی ھے، کیا ھم نے کبھی ان سے باز پرس کی ضرورت محسوس کی؟ اگر ماضی میں نہیں تو اب کیوں نہیں؟
قاریئن کرام! یہ حقیقت تو سب کو معلوم ھے کہ دہشت گردی اب مکمل صنعت بن چکی ھے جسکے ھزاروں نہیں تو سینکڑوں تانے بانے ضرور ہیں۔ پس اس سے نمٹنے یا مقابلہ کرنے کیلئے اسی طرح کی ملٹی پل اسٹریٹیجی کی ضرورت ھے جو کہ بد قسمتی سے پاکستانی اداروں کے پاس شاید موجود تو ھونگے لیکن اب تک فوج کی "اسٹریٹیجیک ڈیپتھ” کی احمقانہ پالیسیوں کے سبب اس پر عمل درآمد نہیں کرپا رہے ہیں لیکن بحیثیت ایک سب سے زیادہ متاثرہ ھم ھزارہ قوم کیوں کسی ایسی ھمہ جہت پالیسی اپنانے میں ناکام رہی ھے؟ اس پر اب سوچنے اور اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ھے، کیونکہ وقتی طور پر اشتعال میں آکر زندہ باد مردہ باد، گھیراؤ جلاؤ کرکے پھر یکدم ٹھنڈے پڑ جانے کے رویے کی موجودگی میں دہشت گردی کی پیچیدہ مافیائی صنعت سے مقابلے کی بابت سوچنا بھی "احمقوں کی جنت” میں رہنےکے مترادف ھے۔ اسکیلئے جذباتیت اور جلد بازی کی بجاے تدبر اور طویل منصوبہ بندی کی ضرورت ہیں۔