تحریر : اسحاق محمدی
کھیلوں کے شعبے میں ھزارہ قوم کے افراد ھمیشہ پیش پیش رھے ہیں جن میں سے ایک فن "گیرگ زنی” یا نشانہ بازی ھے جس کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ھے کہ یہ ھزارہ خون میں فطری طور پر شامل ھے اسکے ثبوت وہ شاندار ریکارڈ ھے جو ھزارہ فرزندوں نے پورے ریجن کی تاریخ میں رقم کی ھے ۔ ھزارہ جات، جہاں سردی اور برف کا موسم کافی طویل ھوتا ھے کے دوران مرد حضرات کا مشغلہ ھی نشانہ بازی "گیرگ زنی” ہیں۔ اچھے ماھر نشانہ باز "میرگن” کہلاے جاتے ہیں اور اسکی قدر و عزت کیجاتی ہیں۔ لیکن افغانستان میں سرکاری یا نجی سطح پر ٹورنامینٹ کے انعقاد کی رسم نہ ھونے کے باعث انکی شہرت زیادہ تر مقامی ھی رھتی ھیں تا ھم ایک نام جیسے لیجنڈ کی حیثیت حاصل ھے وہ مرحوم اسحاق برگیڈ کا ھے جو اپنے وقت کے نامور "میرگن” یعنی نشانچی اورمانے ھوے شکاری تھے۔
ان سے وابسطہ کارنامے ابھی تک زبان زد عام ھے۔ لیکن برصغیرمیں برٹش راج کے دوران چونکہ ایسے کھیلوں کے فروغ اور ریکارڈ رکھنے کی طرف توجہ دیجاتی تھی اسلیے ھزارہ نشانہ بازوں کو کھل کر اپنے جوھر دیکھانے کے مواقع ملے اور انھوں نے اس سے بھرپوراستفادہ کرتے ھوے تاریخ میں ایک زرین باب رقم کیں۔ چنانچہ اس دور میں ھزارہ نشانہ بازوں خاص طور پر ھزارہ پایئنر نشانہ بازوں کی ھر طرف دھوم تھی جنکے بارے میں برٹش آفیسر برگیڈیر بنبری لکھتے ہیں کہ ” نشانہ بازی میں انکا کوئی ثانی نہیں یہ ھزارہ نشانہ باز، سالوں پورے برصغیر سے اکثر تمام ایونٹس کے انعامات سمیٹ لیتے تھے”(ھزارہ پایئنر کی مختصرتاریخ)۔ ان نشانہ بازوں میں مرحوم صوبیدار گردعلی خان جیسا ماھر نشانہ باز بھی شامل تھے جو 1916، 1917، اور 1918 میں مسلسل تین بار آل آنڈیا انٹر سروسیز چمپیئن رھے تھے۔ مرحوم جنرل موسی خان ھزارہ بھی اپنی کتاب "جوان ٹو جنرل” میں کئی ھزارہ نشانہ بازوں کا ذکر فخر سے کرتے ہیں۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں کہ "ایک مقابلے کے دوران جب ایک فاتح ھزارہ نشانہ باز کا نتیجہ انگریز آفیسر کو دیکھایا گیا تو اسے یقین نہیں آیا اور اس نے اپنی نگرانی میں دوبارہ اسے فایر کرنے کا کہا، اور دوسری مرتبہ اس ھزارہ نشانہ باز نے پہلے سے بھی اچھی کارکردگی دیکھائی جس پراسے خوب داد ملی”۔
حالیہ تاریخ میں ھزارہ نشانہ بازوں کی نئی کامیابیوں کا سفر 1983 میں "ھزارہ شوٹینگ سپورٹس کلب کویٹہ” کی تاسیس سے شروع ھوتا ھے جو بخیرو خوبی اب تک جاری ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ھے کہ جب مرحوم جنرل موسی خان گورنر بلوچستان تھے ھزارہ شوٹینگ سپورٹس کلب کی طرف سے آل بلوچستان شوٹینگ مقابلے میں وہ مہمان خصوصی کے طور پر آے تھے۔ اس ٹورنامینٹ میں ممتاز چنگیزی تھرڈ پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے تاھم عام لوگ صرف ایک تھرڈ پوزیشن لینے پر زیادہ خوش نہیں تھے لیکن آنے والے دنوں میں ھزارہ نشانہ بازوں نے بہت جلد اس میدان پر اپنی دھاک بٹھادی اور ایکبار پھر اپنے آباء و اجداد کی شاندار روایت کو دھراتے ھوے پورے پاکستان سے بڑے بڑے اعزازات سمیٹنے میں کامیاب رھے ہیں۔ ان میں جناب استاد رمضان علی بھی شامل ہیں جس نے ھیٹ ٹریک کے ساتھ "آل پاکستان سبی میلہ” میں چار بار اول اور ایکبار دوسری پوزیشن کے ناقابل شکست ریکارڈ کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے تمام قابل ذکر رایفل شوٹینگ مقابلے اپنے نام کرنے کا کارنامہ بھی انجام دے چکے ہیں جنکی تفصیل کیلئے ایک علحدہ مضمون کی ضرورت ھے۔
اسی طرح کئی اور بڑے نام بھی ہیں جیسے صوفی عبدلعلی، انکل نادر، ممتاز چنگیزی، گل محمد ھزارہ، سید شاہ باکول، سید حسین ھزارہ، سید شاھی ھزارہ، اسداللہ ھزارہ، اقبال بالو، علی محمد، محمد حسین ماتو، ٹھیکیدار عزیز اور درجنوں دیگر ماھر نشانہ باز۔ یاد رھے کہ بعض شوٹینگز مقابلوں میں تمام انعامات اپنے نام کرنے کے کارنامے بھی یہ ھزارہ "میر گن” انجام دے چکے ہیں۔ رایفل شوٹینگ ھمیشہ سےایک مہنگا شوق رھا ھے لہذا اکثرامیر طبقہ کے لوگ ھی اس کھیل کی طرف آتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی یہ کھیل سردار، خان، نواب، ملک، ٹکری یا پھر دولتمند طبقوں میں زیادہ مقبول ھے کیونکہ صرف اسی طبقے کے لوگ ھی اسکو افورڈ کرسکتے ہیں۔ بقول جناب علی محمد "خاص طور موجودہ دور میں جب طبقہ امراء لاکھوں روپے مالیت کے ٹیلی اسکوپ لیکر آنے لگے ہیں تو بھلا عام لوگ کیسے اس طرف آنے کی جرات کرسکتے ہیں”۔ لیکن عجب اتفاق ھے کہ ھزارہ نشانہ بازوں کی اکثریت مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ھے۔ اب یہ نشانہ باز کیسے اپنے شوق کو پورا کرتے ہیں (بغیر ٹیلی اسکوپ کے)، اس بارے میں استاد رمضان علی کہتے ہیں کہ "ھزارہ میرگن اپنی فطری صلاحیتوں کیوجہ سے بہت جلد ماھر نشانہ بازبن جاتے ہیں اورپھر انھیں اخراجات کے ضمن میں زیادہ پریشانی نہیں رہتی”۔ شاید انکا یہ دعوی مبالغہ آرائی پر مبنی نہ ھو۔
2005 میں آل پاکستان سویلیئن اینڈ آرمرڈ فورسیسز شوٹینگ چمپیئن شپ منعقیدہ جہلم میں جب محمد گل ھزارہ، مرد میدان رھا تھا تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ "دنیا کی ایک مانی ھوئی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے اسے فکرمند ھوناچاھیے کہ انکے درجنوں پیشہ ور ماھر نشانہ بازوں کی موجودگی میں ایک عام سویلیئن کیونکران سے لیڈ لینے میں کامیاب ھوتاھے”۔
خوشی کا مقام ھے کہ فرازعلی، اویس علی، مزمل حسین، دانش اکبری سمیت ھزارہ قوم کی تیسری نسل اب اس میدان میں کامیابی سے اتری ہیں۔ امید ھے کہ یہ نسل بھی اپنے آباء اجداد کی طرح کامیابیوں کے اس سلسلے کوجاری رکھیگی۔
سال 2015 کے دوران ھزارہ نشانہ بازوں کے کامیابیوں کا سفر اسی شان و شوکت کے ساتھ جاری رھا جسکی اجمالی تفصیل درج ذیل ہیں:
1۔ اسداللہ ھزارہ فروری (26) آل بلوچستان (کویٹہ) فرسٹ پوزیشن
فروری ( 28) آل پاکستان ڈی جی رینجرز( کراچی)فرسٹ پوزیشن
ستمبر آل بلوچستان یوم دفاع بغیر ٹیک (کویٹہ) سیکنڈ پوزیشن
2۔ علی محمد فروری آل پاکستان ڈی جی رینجرز( کراچی) سیکنڈ پوزیشن
3۔ گل محمد فروری آل بلوچستان (کویٹہ) تھرڈ پوزیشن
4۔ سجاد حسین مئی آل بلوچستان (کویٹہ) فورتھ پوزیشن
5۔ فراز علی اگست آل پاکستان یوتھ اینڈ جونیئر اسلام آباد تھرڈ پوزیشن
6۔ سید حسین ھزارہ نومبر(13) آل بلوچستان ڈی جی رینجرز کویٹہ تھرڈ پوزیشن
7۔ پرویز علی نومبر(22) آل بلوچستان (زیارت) سیکنڈ پوزیشن
نوٹ: جناب صبور خان نے ھزارہ شوٹینگ سپورٹس کلب کے ایک دیرینہ ماھر نشانہ باز کی حیثیت سے سال 2015 کے دوران درج ذیل اعزازات جیتے:
8۔ مئی آل بلوچستان (کویٹہ) تھرڈ پوزیشن
اکتوبر آل بلوچستان (مسلم باغ) سیکنڈ پوزیشن
نومبر آل بلوچستان (پشین) سیکنڈ پوزیشن