مہاجرین بحران اور اسلامی جمہوری ایران!

تحریر- اسحاق محمدی
بلا شبہہ اس وقت دنیا، انسانی مہاجرت کے سب سے بڑے بحران کا سامنا کررھی ھے۔ لاکھوں مرد،زن، چھوٹے بڑے مغربی یورپ میں اپنی قسمت کے فیصلے کے منتظراور لاکھوں دیگر مغربی یورپ کی طرف روان دواں ہیں۔ ایسے میں قدرتی و دیگروسایل سے مالامال علاقے کے دولت مند ترین اسلامی ممالک سعودی عرب،کویت،عرب امارات،قطر، بحرین اور ایران، ھمسایہ اور ھم مسلک ھونے کے باوجود اس انسانی بحران سے یکسر لاتعلق اورانجان بنے ھوے ہیں۔ سعودی عرب نے کمال بی شرمی کا مظاھرہ کرتے ھوے جرمنی کوان مسلمان مہاجرین کیلئے دو سو مساجد بنانے کی پیشکش کرڈالی جیسے انھوں نے بکواس قرار دیکر مسترد کردیا اور کہا کہ "اگر سعودی کو اپنے ان مسلمان بھائیوں کا اتنا ھی خیال ھے توانکو اپنی سرزمین میں پناہ دیں کیونکہ اس وقت انکو پناہ کی ضرورت ہیں نہ کہ مسجد کی”۔ البتہ یہ تذکرہ ضروری ھے کہ یہ عرب مسلمان ممالک زیادہ ترمشرقی وسطیٰ اور خاص طورپر شامی مہاجرین کے حوالے سے سوالوں کے زد میں ہیں لیکن اسلامی ملک ایران، مشرقی وسطیٰ مہاجرین سے بے اعتنائی بھرتنے کے علاوہ افغان مہاجرین سے انسان سوز سلوک اور انھیں اپنے مفادات کی خاطر شامی جنگ میں جھونکنے کے حوالے سے بھی تنقید کا نشانہ بن رھاھے۔ آیئے اس موضوع کو تفصیل سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

1979 میں ایران کو کیمونسٹ انقلاب سے بچانے کی خاطر مغربی ممالک نے رضا شاہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں آیت اللہ خمینی کی مدد کی جس نے ایران میں خالص اسلامی نظام عدل قایم کرنے کا وعدہ کیا تھا جن میں سے ایک "اسلام مرز ندارد” یعنی اسلام میں کسی "سرحد” کا تصور نہیں، بھی شامل تھا۔اسی پُرفریب نعرہِ، نیز ھم مسلکی اور ایک حد تک زبان میں مماثلت کے باعث افغانستان کے شیعہ ھزارہ مہاجرین کی بڑی اکثریت نے ایران، مہاجرت کو ترجیح دی۔ بے پناہ انقلابی جوش و،ولولے اور پھر فوراً بعد ایران عراق جنگ کی وجہ سے”شہادت- سعادت” کے مذہبی جذباتی ماحول میں یہ بیچارے ھزارہ مہاجرین اسقدر محو ھوگئے کہ انھیں اپنی خبر تک نہ رھی اور جب ھوش آیا تو ایرانی انھیں چند پُرمشقت ترین کاموں یعنی گاو داری، مرغ داری، کشاورزی، سنگ بُری اور ساختمانی وغیرہ تک محدوداور اسلامی جمہوری حکومت کے ایک اھم حامی ڈاکٹر زیبا کلام کے بقول "انھیں تمام بنیادی اسلامی، انسانی بشمول، تعلیم، صحت یہاں تک کے بنک اکاونٹ کھولنے کے حقوق سے محروم کرچکے تھے”۔ شیخ سعدی کا قول ھے کہ: اگر از باغِ رعییت ملک خورد سیبی
برآورند لشکریانِ او، باغ از بیخ !
اگربقدریک بیضہ سلطان ستم روا دارد
سپاھیانِ او زنند ھزار مرغ بہ سیخ !
جب ایرانی ولی فقیہ اور دیگر جید آیت اللہ حضرات کی موجودگی میں یوں اسلامی تعلیمات و قوانین کی دھجیاں اڑا دی گئیں تو اس کا انجام وہی ھونا تھا جنکی نشاندی شیخ سعدی نے صدیوں پہلے کردی تھی۔ اب کونسے مظالم ہیں جو اسلامی جمہوریہ ایران میں افغان مہاجرین کے خلاف روا نہیں رکھے گئے۔ ان پر حصول علم اوراچھے روزگارکے دروازے بند، معاوضوں کی کمی یا پھر عدم ادایگی کی شکایات عام، رفت و آمد پرقدغن، کئی صوبوں، شہروں میں انکے داخلوں پر پابندی، تذلیل، قید و بند نیز قید و بند کے دوران انکے جنسی استحصال وغیرہ ایسے روزہ مرہ واقعات ہیں جن سے ھر مہاجر باخبرھے اور جنکی نشاندہی تمام معتبر عالمی اداروں بشمول ھیومن رایئٹس واچ نے کی ہیں۔

چند مہینہ پہلے افغانستان کے وزارت امور مہاجرین نے ھرات میں پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا کہ ایرانی حکام ڈیپورٹ کئے گئے افغان خواتین بطور خاص کم عمر بچیوں یہاں تک کے کم عمر بچوں کی جنسی زیادتیوں میں ملوث پاے گئے ہیں(اسکی آڈیو، ویڈیو رپورٹس سوشل میڈیا پر موجود ہیں)، جبری ڈیپورٹیشن اور ڈیپورٹیشن کے ایسے درجنوں واقعات بھی رونما ھوچکے ہیں کہ جن میں والدین جبری ڈیپورٹ ھوئے ہیں جبکہ شیر خوار اور چھوٹے بچےگھرمیں بھوک اور پیاس سے مرگئے ہیں۔ لیکن ان تمام غیرانسانی،غیراسلامی، غیر شرعی، غیراخلاقی جرایم کے مرتکب ایک بھی ایرانی کو اب تک سزا نہیں ملی ھے جسکا واضح مطلب یہ ھے کہ اسلامی جمہوری ایران میں افغان مہاجرین جن سے عموماً ھزارہ ھی مراد لیا جاتا ھے میں ایک ھی قانون ھے کہ "ان سے جو چاھو سلوک کرو، وہی اسلامی بلکہ عین شرعی ھے"۔ مگر اب ان سب مظالم سے زیادہ بھیانک وہ کردارھے جس کے تحت ایرانی پاسداران، ھزارہ مہاجرین کو جبراً یا پھردایمی رھایشی کارڈ (پرمیننٹ ریزیڈینٹ کارڈ) کی لالچ دیکرشام کی جنگ میں جھونک رھے ہیں جنکی ایک تعداد اب تک بشرالاسد رژیم کی طرف سے لڑتے ھوے ھلاک ھوچکی ہیں یا گرفتار ہیں۔ اگرچہ ایرانی اسلامی حکام اب تک اپنے اس جرم سے انکاری ہیں لیکن دنیا کے معتبر جراید کی رپورٹوں اور یوٹوب پر اسد رژیم مخالفین کی طرف سے آئے دن اپ لوڈ ویڈیوزکو جھٹلانا اب ایرانی اسلامی جمہوری رژیم کی بس کی بات نہیں رھی ھے۔ جبر و استبداد کے اس انتھا پر 30، 35 سالوں بعد امام زمان کے اس دیس سے جب یہ ھزارہ مہاجرین مجبور ھوکر ایکبار پھرکسی کافر یورپین ملک کی طرف جانے لگے ہیں تواب ایرانی کالے اسلامی قوانین رکاوٹ بن رھے ہیں۔

چنانچہ اس وقت جبکہ علاقے کے تمام ممالک نے مہاجرین کی بدترین انسانی بحران نمٹنے کیلئے وقتی طور پر اپنی سرحدیں کھولدی ہیں ایران ترکی بارڈرھزارہ مہاجرین کیلئے موت کی پٹی بنی ھوئی ھے جہاں ھر مہینہ درجنوں افغان مہاجرین جنکی اکثریت ھزارہ ہیں، ایرانیوں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں جبکہ ایک تعداد بھاری رشوتیں دیکر ترکی پہنچ جاتی ہیں گویا اس اسلامی ملک میں صرف رشوت ھی اسلامی ھے ورنہ گولی یا ڈیپورٹیشن کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں۔ ترکی میں افغانستان مہاجرین کیلئے کام کرنے والی تنظیم "انجمن ھمبستگی و ھمدردی با پناھیندگان افغان” کے ایک عہدیدار جناب علی حکمت کے مطابق اس وقت ترکی میں 45ھزار افغان مہاجرین رہ رہے ہیں جنکی 80 فیصد تعداد، ایران سے آے مہاجرین پر مشمل ہیں۔ علی حکمت کے مطابق اس وقت روزانہ 1500 تا 3000 افغان مہاجرین ترکی سے یورپ کیلئے روانہ ھورہے ہیں جبکہ دوسری طرف ایک ایرانی سرحدی گارڈ کے آفیسر کے مطابق انھوں نے گذشتہ پانچ مہینوں کے دوران 22ھزار افغان مہاجرین کو گرفتار کرکے افغانستان ڈیپورٹ کرچکے ہیں”(آرایف آئی نیوز ویب سایٹ فارسی، مورخہ 21 ستمبر 2015)۔ اب سیدھا سادہ سا سوال یہ ھے کہ جب ایران اپنے خالص اسلامی قوانین کے تحت نہ اپنے ان مسلمان بھائیوں کو قبول کرنے پر تیار ھے اور نہ انسانی حقوق دینے پر آمادہ، تو آخر انکویورپ جانے کی اجازت نہ دینے کے پہچھے کونسے اسلامی فلسفہ یا قوانین پنہاہ ہیں؟؟؟


Join the Conversation