تحریر: حسن رضا چنگیزی
بی بی سی کی نمائندہ نے جب بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک سے سوال پوچھا کہ اگر چہ حال ہی میں ہزارہ برادري کی سکيورٹی موثر بنانے کے اقدامات کیے گئے ہیں، لیکن برادري کے لوگ کہتے ہیں کہ اِن اقدامات سے وہ محصور ہو کر رہ گئے ہیں ـ ـ تو کیا حکومت ایسے اقدامات نہیں کر سکتی کہ وہ خود کو سوسائٹی کا حصہ سمجھ سکیں؟ تو ڈاکٹر صاحب کا جواب تھا :
” اپنے آپ کو Isolation سے وہ خود ہی نکال سکتے ہیں ۔ میں نے ان سے بارہا کہا ہے کہ آپ اپنے آپ کو Isolation میں کیوں لے کے جاتے ہیں ۔ حالات تو ابھی خراب ہوئے ہیں صورت حال تو اس سے پہلے بھی یہی تھی “
یعنی ڈاکٹر صاحب یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہم نے اپنی مرضی سے اپنے لئے اس تنہائی کا انتخاب کیا ہے ۔ اور یہ جو ہمارے ارد گرد خوبصورت اونچی اور پکی دیواریں بنی ہیں یہ ہم نے خود چندہ کرکے کھڑی کی ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان کے باقی نسلی گروہ اکھٹے یا ساتھ ساتھ رہتے ہیں جبکہ صرف ہزارہ الگ تھلگ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس سلسلے میں وہ سریاب روڑ کی مثال دیتے ہیں جہاں ان کے خیال میں بلوچ ، پشتون اور پنجابی ہمسایوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں ماسوائے ہزارہ ۔
ڈاکٹر صاحب آپ کی باتیں سرآنکھوں پر ۔ آپ نے درست فرمایا کہ یہ سارا کیا دھرا ہمارا ہی ہے ۔ ہم خود تنہائی پسند ہیں بلکہ ہمیں قتل ہونے کا بھی بڑا شوق ہے اس لئے ہم نے خود ہی کچھ رضا کاروں کو اپنے قتل عام کا ٹھیکہ دے رکھا ہے کیونکہ پاکستان کی بیس کروڑ آبادی میں ہماری تعداد جس تیزی سے بڑھ رہی تھی اور جو بڑھتے بڑھتے چھ یا سات لاکھ کی خطرناک حد تک پہنچ گئی تھی اس پرکنٹرول کرنا بھی تو ضروری تھا ۔ اس لئے ہم نے قاتلوں سے دست بستہ التجاء کی کہ وہ اسلام کے قلعے کو ہمارے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے آگے آئیں اورہمارا خون بہا کے ثواب دارین حاصل کریں ۔
ڈاکٹر صاحب آپکو اندازہ ہی نہیں کہ جب کوئی ماں اپنے جوان بیٹے کی میت پہ دھاڑیں مار مار کر روتی ہے تو اس وقت اس کے کلیجے میں کتنی ٹھنڈک پڑتی ہوگی؟ آپکو تو یہ بھی اندازہ نہیں کہ جس گھر سے ایک ہی وقت میں کئی جنازے اٹھتے ہیں تب اس کے مکینوں کے من میں کس طرح لڈو پھوٹتے ہیں ؟ آپ کو تو ان ماؤں کی خوشی کابھی کوئی اندازہ نہیں جنہوں نے اپنے بچّوں کے اجسام کے ٹکڑے پلاسٹک کی تھیلیوں میں جمع کئے ۔ آپ تو اس لذت سے بھی نا آشنا ہونگے جس کا احساس تب ہوتا ہے جب گھر کا واحد کفیل صبح سویرے مزدوری کی تلاش میں نکلتا ہے اور شام کو اس کی کٹی پھٹی لاش گھر پہنچتی ہے ۔
لیکن ہم ان لذتوں سے نہ صرف آشنا بلکہ ان کے دیوانے ہیں اس لئے ہم قتل ہونے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ لہٰذا آپ کی بات سو فیصد درست ہے کہ ہم خود تنہائی سے نکلنا نہیں چاہتے ۔
بقول منیر نیازی
کج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ شہر کے لوگ تو بہت اچھے ہیں بس ہمیں ہی مرنے کا کچھ زیادہ شوق ہے ۔
آپ نے یہ بھی بالکل بجا فرمایا کہ ہم دوسروں سے آسانی کے ساتھ گھلتے ملتے نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جو ہزارہ کئی دہائیوں سے خضدار اور مچ میں آباد تھے ، جن کے بچّے ہزارہ گی زبان بھول کر براہوی بولنے لگے تھے ، جہاں کی کوئلہ کانیں انہی غریب ہزارہ محنت کشوں کے دم قدم سے آباد تھیں ، جہاں کے پہاڑوں کا سینہ چیر کران کے بزرگوں نے سرنگیں بنائیں اور جہاں کی سڑکیں ، پل اور ریل کی پٹڑیاں اب بھی ان کی جفا کشی کی داستانیں سنا رہی ہیں ۔ انہی شہروں کو چھوڑ کر یہ ناشکرے مری آباد اور ہزارہ ٹاؤن چلے آئے تاکہ خوبصورت اونچی دیواروں کے درمیان خوش و خرم زندگی گزار سکیں ۔
اس کی وجہ یقیناَ یہ نہیں کہ وہاں ان کو چن چن کر مارا جارہا تھا بلکہ چونکہ وہ ازل سے تنہائی پسند تھے اس لئے انہوں نے کچھ ” معمولی ” واقعات کا بہانہ بنا کراپنا گھربار اورکاروبار سمیٹا اور مری آباد بسنے آگئے ۔
آئے دن آرسی ڈی شاہراہ پر سفر کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم ہزارہ موت سے بے پناہ عشق رکھتے ہیں اس لئے آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ جب بھی مستونگ ، غنجہ ڈوری اور تفتان میں ہم پر حملے ہوئے ہیں اور ہماری ماؤں اور ننھے بچّوں کی لاشیں گھر پہنچی ہیں تو ہم نے کس طرح مل کر شادیانے بجائے اور بھنگڑے ڈالے ہیں ؟
ڈاکٹر صاحب آپ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ہر سال ہماری عید کیسے گزرتی ہے ؟
آپ کی یہ بات بھی سولہ آنے درست ہے کہ سریاب روڑ میں پشتون ، بلوچ اور پنجابی اکھٹے زندگی گزارتے ہیں اور اگر وہاں کوئی ناپید ہے تو وہ ہزارہ ہیں ۔ یقیناَ آپ اسی سریاب روڑ کی بات کر رہے ہونگے جہاں پولی ٹیکنک کالج ، ڈگری کالج اور بلوچستان یونیورسٹی واقع ہیں ۔ جہاں کچھ سال قبل تک سینکڑوں ہزارہ طالب علم تحصیل علم کی خاطر جایا کرتے تھے ۔ جہاں واقع سرکاری دفاتر میں ہزارہ ملازمین کی ایک بڑی تعداد کام کرتی تھی اور جہاں آج کسی ہزارہ کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم ہے ۔ یقیناَ یہ وہی سریاب روڑ ہے جہاں آپ بھی درجنوں محافظوں کے بغیر نہیں جاسکتے ۔
مانا کہ اس سریاب روڑ کو اپنے لئے نو گو ایریا بنانے میں بھی ہمارا ہی قصور ہے ۔ کیا ضرورت ہے ہمارے بچّوں کو کالج ، یونیورسٹی یا دفاتر جانے کی ؟ انہیں تو آرام سے گھروں میں بیٹھے رہنا چاہئے تاکہ کسی مجاہد کو ان کی بس پر خود کش حملہ کرنے یا ان کے سروں میں گولیاں اتارنے کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے ؟ لیکن کیا کیا جائے کہ بیدردی سے قتل ہونا ہماری پرانی Hobby ہے تاکہ ہمیں Isolation میں رہنے کا بہانہ میسر آسکے ۔
آپ کی اس بات میں بھی بڑا وزن ہے کہ اگر ہزارہ دوسروں کے ساتھ Inter marriages کریں تو انکے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔
جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ آپ کا یہ فلسفہ بھی کچھ نیا نہیں ۔ کچھ اسی طرح کی آفرز ہمیں پہلے بھی مل چکی ہیں جن کے مطابق اگر ہم اپنا عقیدہ چھوڑ کر “ان کا” عقیدہ اختیار کرلیں تو ہماری جان بچ سکتی ہے ۔ سوال یہ ہے کیا آپکے پاس Isolation سے نکلنے کا یہی تیر بہدف نسخہ باقی بچا ہے ؟ اگر ہاں تو یہ بھی بتائیں کہ آپ بلوچستان کی تنہائی کا کیا حل تجویز کریں گے ؟ کیا اسے بھی اپنے مسائل کے حل کی خاطر پنجاب سے ازدواجی رشتے قائم کرنے پڑیں گے ؟
آپ نے اپنے انٹرویو میں اس بات کا بھی کریڈٹ لیا ہے کہ 2013 کی نسبت صوبے میں فرقہ وارانہ تشدد میں کمی آئی ہے ۔ جہاں تک آپ کے اس دعویٰ کا تعلق ہے تو آپ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اس میں آپ کا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ انہی لوگوں کا کمال ہے جنہوں نے آپکو ڈھائی سال کی بادشاہت عطا کی ہے ورنہ اب تک بے دردی سے قتل ہونے والے 1500 سے زائد بے گناہ ہزارہ مرد ، عورتوں اور بچۤوں کے قاتلوں میں سے کسی ایک قاتل کو تو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جا چکا ہوتا ۔
آپ تو انہیں بخوبی جانتے ہونگے ۔ یہ وہی “محب وطن” لوگ ہیں جنہیں بے گناہوں کے قتل عام کا لائسنس ملا ہوا ہے ۔ جنہوں نے پچھلے سال آپکے گھر کے پاس ہی ہاکی گراونڈ میں جنوری ، فروری 2013 کے میچوں میں سینچریاں بنانے پر فخرکا اظہار کیا تھا ۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں آپکی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا تھا اور یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے بہ رضا و رغبت اپنے قتل عام کا ٹھیکہ دے رکھا ہے ۔
آپ نے اپنے انٹرویو میں ایک بات کا اعتراف کیا ہے کہ ہزارہ نشین علاقے شہر کے باقی علاقوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں ۔ دیکھا جائے تو اس میں بھی ہزارہ عوامی نمائندوں کی اپنی غلطی ہے جو عوام کا پیسہ اپنی جیبوں میں ڈالنے کے بجائے علاقے کی ترقی اور عوامی مسائل کے حل پر خرچ کرتے ہیں ۔ اب انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ خواہ مخواہ فضول کی Efficiency دکھائیں ؟ جبکہ انہیں دوسروں کی طرح شہر اور صوبے کی پرواہ کرنے کے بجائے عوام کے پیسوں سے اسلام آباد اور دوبئی میں جائدادیں بنانی چاہئے ۔ یا تو وہ بڑے بے وقوف ہیں یا پھر بقول آپ کے انہیں تنہائی میں رہنے کی عادت ہے تبھی تو وہ اپنے بنائے ترقی یافتہ اور خوبصورت پنجروں میں قید ہو کر مزے کی زندگی گزار رہے ہیں ؟
ڈاکٹر صاحب ہمیں آپ سے بڑی امیدیں تھیں کیونکہ آپ ایک ایسی پارٹی کے رہنماء ہیں جو انسانیت پہ یقین رکھتی ہے ، جو غوث بخش بزنجو کے افکار کی پیرو کار ہے اور جس کا دعویٰ ہے کہ وہ کچلے ہوؤں کی نمائندگی کرتی ہے ۔ کاش آپ اپنے انٹرویو میں ان قاتلوں اور ان کے سرپرستوں کا بھی نام لیتے جو اب بھی نہ صرف دھڑلے سے اخبارات میں بیانات جاری کررہے ہیں بلکہ وقتاَ فوقتاَ دھمکیاں بھی دیتے رہتے ہیں ۔ لیکن آپ ہیں کہ سارا ملبہ ہمی پہ ڈال رہے ہیں ۔
معاف کرنا ڈاکٹر صاحب ۔ آپ ڈاکٹر ہوتے ہوئے حکیم بننے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
ڈاکٹر کا تو کام ہی مرض کی صحیح تشخیص اور اسکا مناسب علاج ہے ۔ لیکن آپ کسی خاندانی حکیم کی طرح اپنے مریضوں کا خمیرہ گاو زبان ، جوہر بنفشہ ، جنسنگ ، زعفرانی کشتے اور دم درود سےعلاج کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ایسے میں آپ پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے ؟
حواله: چنگیزی دات نیت