تحریر:- نسیم جاوید
کسی دانا کا قول ھے کہ قانونِ فطرت میں جنگ ایک فطری عمل ھے جسے ھم جانوروں میں مشاھدہ کر سکتے ھیں جو شعور سے عاری ھیں۔ جنگ میں قتل کرنا، زخمی کرنا اور لوٹ مار کرنا جائز بن جاتے ھیں اس لئے مہذب انسانوں نے اسے حیوانی فعل قرار دیا ھے۔ چونکہ انسانوں کی فطرت میں بھی جنگ کرنے کی خصلت شامل ھے اس لئے انسان بھی آپس میں جنگ کرتے ھیں، خون بہاتے ھیں اور زخمی کرنے کے ساتھ ساتھ لوٹ مار بھی کرتے ھیں۔ انسانی جنگوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ھیں۔ جنگ کی بنیادی وجہ ’’مادی‘‘ ھے نہ کہ روحانی۔
جنگوں کے پیچھے تین بنیادی عوامل کار فرما ھوتے ھیں:۔
’’زر، زن اور زمین‘‘۔
ان تینوں عوامل کی تعریف ھم اس طرح پیش کر سکتے ھیں کہ ’’زر‘‘ کا مطلب ’’سونا، پیسہ اور اقتصاد‘‘ ھے ۔
’’ زن‘‘ کا مطلب عورت اور عورت کی معنویت ’’ خاندان ،غیرت اور لذت‘‘ کا حصول ھوتا ھے۔
’’ زمین‘‘ کا مطلب ’’ جائیداد ، جاگیر اور ریاست‘‘ ھے۔
اس تشریح کے ساتھ اب آئیے یمن کی جنگ کو قانونِ فطرت کے تناظر میں دیکھتے ھیں۔
یمن کی جنگ در حقیقت زر اور زمین کی جنگ ھے اس کے پیچھے کوئی روحانی وجوھات نہیں اور نہ ھی یہ عقیدے کی جنگ ھے۔
یہ جنگ دو نسل پرست عرب خاندانوں کے درمیان جاری ھے ۔ جس میں ایک طرف سعودی خاندان کھڑا ھے جس کا بادشاہ جناب سلمان بن عبدالعزیز صاحب ھےجو سعودی عرب کے اقتدار اعلی کا مالک ھے اور خود کو خادم حرمین شریفین کہتے ھیں۔
دوسری جانب ھاشمی خاندان ھے جو ایرانی پارلیمنٹ کو چلا رھا ھے۔ ایرانی پارلیمنٹ میں ۹۹ فیصد ھاشمی عرب ھیں جس کا سربراہ جناب آیت اللہ خامنہ ای صاحب ھے۔
جنگ کی بنیادی وجہ اور اقتصادی پہلو حج اور عمرہ بیت اللہ کی درآمد اور تیل کے وہ زخایر ھیں جو شیعہ آبادی والی زمینوں سے نکلتا ھے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جو بھی خادم حرمین شریفین ھوگا وھی حرمین شریفین کی تجوری کا مختارِ کل بن جائے گا۔ تجوری کی چابی بھی اسی کے قبضہ میں ھوگی اور حرمین کے جملہ اختیارات بھی۔ ھاشمی خاندان چونکہ حضرت محمد ص کی نسل سے چلا آرھا ھے اس لئے وہ اپنے آپ کو حرم کے خادم ھونے کا زیادہ حقدار سمجھتے ھیں۔
سعودی اور ھاشمی خاندان کی جنگ کو روکنے کے لئے تمام اسلامی ممالک کو چاھئیے کو وہ عقیدے کی عینک اتار کر اسے زمینی حقائق کے تناظر میں دیکھیں اور تجزیہ کریں۔ آج تک اس جنگ سے نہ سعودی خاندان اور نہ ھی ھاشمی خاندان کے کسی فرد کو خراش تک آئی ھے اور نہ ھی کوئی جانی نقصان ھوا ھے بلکہ یہ دونوں خاندان عقیدے کے نام پر اپنے پراکسیوں کو میدان میں اتارتے ھیں اور پیسوں کے ذریعے کشت و خون کا بازار گرم کرا رھے ھیں۔
یہ دونوں خاندان اپنے اپنے ریاست کو جنگ سے پاک صاف رکھتے ھیں اور پراکسیوں کے ذریعے دوسروں کی سرزمین کو جنگ کے لئے استعمال کرتے ھیں۔ پاکستان، افغانستان ، عراق، شام اور یمن میں بھی ان کے پراکسی کئی دھائیوں سے برسرِ پیکار ھیں اور اب تک ھزاروں بے گناہ شیعہ، سنی اور وھابی کے نام پر قتل کئے گئے ھیں۔
یمن کی یہ جنگ عقیدہ اور مذھب کی جنگ ھرگز نہیں ھے بلکہ اس کے پیچھے ٹھوس مادی وجوھات کارفرما ھیں۔ تاریخ گواہ ھے کہ طاقتور خاندان اور طاقتور قوم کا خدا بھی طاقتور ھوتا ھے اور کمزور خاندان اور کمزور قوم کا خدا بھی کمزور ھوتا ھے۔
تاریخ ھمیں یہ بھی بتاتی ھے کہ جو قوم شکست سے دوچار ھوئی ھے ان کا خدا بھی معزول کر دیا گیا ھے اور جو قوم فتح یاب ھوئی ھے اس قوم کے خدا کو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا ھے۔
ھر عقیدہ اور ھر مذھب ، مادی اور اقتصادی عوامل کی بنیاد پر بنتے اور مٹتے جاتے ھیں۔
پاکستان ایک ایسا ملک ھے جس کی آبادی پنجابی، پٹھان، سندھی، بلوچ اور سرائیکی وغیرہ پر مشتمل ھیں۔ اگر اس ملک کے حکمران عوام سے محبت کرتے ھیں اور عوام کی فلاح چاھتے ھیں تو انہیں عربوں کی چپقلش سے دور رھنا ھوگا کیونکہ پاکستانیوں کا دوست نہ سعودی ھیں اور نہ ھاشمی۔
دنیا میں یہودی اور عرب سب سے خطرناک نسل پرست اقوام ھیں۔ یہودی اور عرب کسی کے دوست نہیں ھوتے یہ دونوں صرف اپنے مفادات کو عزیز رکھتے ھیں۔
یہودیوں کی طرح سعودی اور ھاشمی خاندان بھی خود کو انسانوں میں اعلیٰ نسل تصور کرتے ھیں اور نسل پرستی کو عقیدہ کا جزو بنا دیا گیا ھے۔ یہ دونوں خاندان ایسے لوگوں کو اپنے پاس رکھتے ھیں جو ان کے سامنے جھک جائیں ان کا ھاتھ چومے اور ان کے جوتے سیدھا کرکے ان کی مفادات کی جنگ لڑیں، ان کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے شہادت کا درجہ پائیں اور ان کے اقتدار اور حکمرانی کو دوام بخشے۔
پاکستان کو حتی الامکان عربوں کی سازش سے آگاہ رھنا ھوگا اور مذھب کے نام پر اپنے عوام کو اس جنگ کا ایندھن بننے سے روکنا ھوگا۔