تحریر- لیاقت علی
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب استاد عبدالعلی مزاری کی شہادت کی خبر بی بی سی سے نشر ہوئی تو میرے محلے میں لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل آئے کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا اور دعا یں کر رہے تھے کہ خدا کریں کہ یہ خبر غلط ہو مگر اگلی صبح یہ منحوس خبر درست ثابت ہوئی اور ہزارہ قوم اپنے محبوب لیڈر سے محروم ہو گئی جسکے ساتھ ھی تمام امام بارگاہوں سے قرآن خوانی کی آوازیں آنے لگیں۔ لوگوں کے آنکهوں میں آنسو اور دلوں میں رنج و الم کا عالم تها شہید استاد مزاری کی تشیع جنازہ میں شرکت کرنے کے لیے کوئٹہ سے ایک بڑا وفد پشاور کے رستے مزار شریف گئے اور اپنے ھردلعزیز شہید رھنما کو خراج عقیدت پیش کیا۔ یہاں کے لوگوں کو مزاری سے اور مزاری کو اپنی قوم سے محبت تھی وہی قدرتی وابستگی جو افغانستان سے باہر ایک پشتون کو ڈاکٹر نجیب اللہ سے، ایک تاجک کو مسعود سے اور ازبکوں کو رشید دوستم سے ہیں۔ آغائے رحیمی کہتے ہیں کہ ” میں، بابا مزاری اور قومای کویٹہ کے دوست، امدادی اشیاء اور رقوم کو ھزارہ جات بھیجوانے کی خاطرکافی مدت تک کراچی میں مقیم رھے اور اس پورے عرصے کے دوران ھم صرف دھی روٹی پر ھی گذارہ کرتے رھے کیونکہ بابا مزاری، امدادی رقوم ( بلا شبہ بھاری) کو قوم کی امانت سمجھتے” بقول آغائے رحیمی بابا مزاری، قومای کویٹہ کے جذبہِ ایثار اور تعاون کے ھمیشہ معتریف تھے اور فرماتے کہ "اس نازک اور بحرانی دور میں قوماے کویٹہ نے دینا بھر میں مقیم ھزارہ قوم اورھزارہ جات کے درمیان پُل کا کردار ادا کیا جیسے کسی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا”
مجهے یاد ہے کہ لوگوں نے امام بارگاہ نچاری میں ہزارہ جات کے پسماندہ علاقوں اور غریب عوام کے لیے امدادی سامان اور رقم جمع کی تو لوگوں نے اپنی توانمندی سے بڑھ کر امداد دی اور جب طالبان نے ھزارہ جات کی ناکہ بندی کر رکھی تھی اور وھاں دواوں اور خوراک کی قلت پیدا ھوئی تهی تو ھزارہ پروگریسیو کے زیر اھتمام اس فورم کے رھنما طا ہر خان ھزارہ کی قیادت میں کویٹہ کے ھزارہ برادری کی ایک بیت بڑی تعداد نے ہزارہ جات کےغیور عوام سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ایک احتجاجی ریلی نکالی تھی اور طالبان کی اس غیر انسانی اور نا روا سلوک کے خلاف دینا کے سامنے اپنی آواز بلند کی تھی۔ محمد علی اختیار ،عالم مصباح ، رضا واثق اور دیگر شعراء کے انقلابی اشعار کو داور سرخوش رجب حیدری ،غضنفر علی اور ان جیسے دوسرے ہنرمندوں نے” انقلابی ترانے اورقومی نغمے” کی صورت دیکر اینھیں پوری دینا تک پہنچایں جو "ھزارہ قومی تحریک” کو پروان چڑھانے میں کافی ممد و معاون ثابت ھوئی۔ استاد محقق جب کوئٹہ آئے تو اپنی تقریر میں کہا کہ "میں در اصل بابا مزاری شہید کی خواہش کی تکمیل کر رہا ہوں کیونکہ انکی دلی خواہش تهی کہ کوئٹہ میں اپنی قوم کی خدمت میں آیں مگر زندگی نے مہلت نہیں دی”۔ شہید بابا مزاری نے اپنی تقریروں میں کئی بار کوئٹہ کے ہزاروں سے خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہیں کہ میں قومای کوئٹہ کی مخلصانہ دوستی اور محبت نیز انکی مسلسل بے لوث سیاسی حمایت کو کبھی نہیں بهولا سکتا۔ وہ دن بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کوئٹہ میں استاد شہید کی پہلی برسی منائے کے موقع پر ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ھوے استاد معلم عزیز نے کہا تھا کہ”شہید بابا مزاری دَ بال خدا رَ دشت و دَ زمین، حمایت بیدریغ سیاسی قومای کوئٹہ رَ”۔ استاد مزاری شہید کی یوم شہادت کو نہایت احترام اور جذبے سے منانا ایک روایت بن گئی ھے "روح شی شا د و راہ شی ادامہ باد”