[follow_me]تحریر- لیاقت علی
ہر سانحہ پر هم برسوں سے وہی نعرہ لگا رہے ہیں جیسے هم نے دوسروں سے سکھا ھے
شہادت – سعادت۔
شہادت قبول مگر شہادت کسی تحریک کے لیے کسی کاز اور مقصد کے لیے ہوتی ہے. عراق میں لوگ زیارتوں کی حفاظت اور کوبانی میں کردلوگ اپنی سر زمین اور قوم کی حفاظت کے لیے شہادت کا رتبہ پا رہے ہیں جبکہ ھمارے ھاں بے گناہ لوگوں کے خون کی قیمت بس یہ دو اشعار ہیں –
"تم کس کس کو مرواو گے … از کشتو کم نہ موشہ سری آزرہ خم نہ موشہ”۔
ہزاروں قتل ہوئے ہزاروں زخمی – – لاکھوں نے ہجرت کی راہ لیں، کیا ھم انہی چند ازبر نعروں سے قاتلوں کوزبانی پیغام دینے پر اکتفا نہیں کررھے ھیں ؟ اب همیں نعروں، جلسہ جلوسوں سے بهی آگے کچھ سوچنا اور کرنا ہوگا سیاسی بیانات، کانفرنسز، احتجاج درست مگر اس طرح کب تک احتجاج کر تے رہینگے؟ ریاست اورریاست کے دفاعی اداروں سے مدد کی اپیلیں اور معجزوں کا انتظار کرتے کرتے اب کوئی بھی مزید یقین کرنے کو تیار نہیں. اب بهی دشمن کی گولیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رھی اورتسلسل سے هم قتل ہوتے جا رہے ہیں.
ایک طرف حکومتی اور سیاسی مذہبی بیانات جبکہ دوسری طرف مٹهی بھر دہشتگرد ، لیکن ان مٹهی بھر دہشتگردوں کو نہ تو پولیس نہ ھی فوج کے 10 لاکھ نفری ختم کر سکی ھیں. هم ہر سانحہ پر جذبات اور دل کی تسلی کے لیے اتحاد و اتفاق اور آئندہ کےلائحہ عمل کا اعلان کرنے کی جھوٹی موٹی بیانات جاری کر کے اخباری صفحات کو کالا کرکے ٹایم پاس کر رہے ہیں یا پھرعربی کے چند بول پڑھ کر انکے لواحقین کو تسلی دیتے ہیں حالانکہ ان کی بے گناہ شہادت ہی انکے لئے جوار رحمت ہے ،جبکہ بعض حلقےان سانحات کو قوم کے برے اعمال قرار دیکر دراصل اپنی جیبیں گرم کرنے میں مصروف ہیں کون سا ایسا ھزارہ گھر ہے کہ جو 10 منٹ سے زیادہ کسی مسجد سے دور ہو کون سا گهر ہے کہ جس میں نماز نہ پڑھی جارھی ھو، روزہ نہیں رکهے جا رھےھواور نذرونیاز خیرات نہیں بانٹی جاتی ھو جبکہ حکومت گورنر راج لگا کر ثابت کردی اور ثبوت ددی کہ همارے ساتھ ناروا ظلم کی انتہا ہے۔
لوگوں کو مرنے کے غم سے زیادہ اس بات کا دکھ ہے کہ 1500 سے زاید بےگناہ "ھزارہ” قتل ہوئے مگر قاتل نامعلوم،؟کیوں قتل ہوئے،؟ کن لوگوں نے قتل کیا؟ کیا ایسے میں هم اپنی آئندہ نسلوں کے لئے کہہ سکتے ھیں کہ اسبابِ قتل اور قاتل نامعلوم ہیں !؟۔ کیاھم تاریخ مین لکھے کہ حسین یوسفی، طالب آغا، ولایت ایڈووکیٹ،اینجیئر احمد نجفی اور دوسرے شہداء کے قتل کے مقاصد اور محرکات کے بارے میں ھم کچھ نہیں جانتے کہ انکے پیچھے کون سے عوامل کار فرما تهے ؟.”یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچے وردی ہے” کیا همارے پاس کوئی ثبوت ہے اگر ہے تو اسے عدالت میں پیش کرنے کی جرات کسی نےکی؟ پورے پاکستان کے مومنین دهرنا دے سکتے ہیں مگر جو فوج میں ہیں وہ کچھ نہیں کر سکتے؟ اس پر هم کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے. آپ کے دهرنوں سے نہ تو کسی کو معاشی مشکلات درپیش تهی نہ کسی کےراستے بند تهے اور نہ کسی سیاسی اور مذہبی نظریات کو خطرہ لاحق تها۔
اپنے قاتلوں تک پہنچنے کے لیے اور دہشت گری کے سدباب اور حقائق کو سمجھنے اور بتانے کے لیے همیں جرات سےلکهنا ہوگا۔ سومیں سے اگر چند تحقیقات بھی درست ھوں تو پهربھی پاکستانی ریاست کو عالمی عدالت کے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر کے پوچھ پاینگے کہ انہوں نے کہا تک اپنی ذمہ داریاں نبھائی تهی دینا کے سامنے اپنا مقدمہ رکهنے تاریخ میں اپنے اوپر ہونے والے مظالم پرنااھل حکمرانوں کا گریبان پکڑنے کیلئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ھیں .
شہید حسین یوسفی، طالب آغااور کئی دیگر اھم ھزارہ شخصیات کو انکے فونز پر قتل کرنے کی پیشگی میسجیز آتے تھے اب یہ انکے لواحقین اور دوستوں کا فرض ھیں کہ اصل حقایق کومنظرعام پر لے آیں، انکے قاتلوں اور انکے پیچھے چپھے انکی حمایتیوں کے چہروں سےنقاب اتارپھینک دیں. ذرا غورکریں ھم اپنے کسی ادنیٰ چیز کی گمشدگی یا ٹوٹنے پر آس پاس کے لوگوں سے دسیوں مرتبہ پوچھ گوچھ اور وجوہات پوچھتے ، اسے زمین اور آسمان سے ڈھونڈنے کی ضد کرتےھیں لیکن اپنی قوم کے جگر گوشوں کے اندھادھند قتل پر محض افسوس، دکھ اور دعا کے دو بول پرھی اکتفادہ کرتے ھیں.
اپنے شہداء کے پاک خون کا بدلہ لینے کیلئے اگرھم کوئی بڑا قدم نہیں اٹھا سکتے تو کم ازکم ان شواہد و مدارک کو مستند انداز میں آرٹیکلز، کتابوں یا پھر دستاویزی فلموں کی صورت محفوظ کرستے ھیں جو پاکستان کے اندریا کسی بین الاقوامی فورم میں ھمارے قاتلوں اور انکی درپردہ حمایتیوں کو کیفرکردارتک پہنچانے کیلئے کافی ھوں۔ اگر ماضی میں اس طرف توجہ دی جاتی تو آج ھمارے پاس کافی شواھید ھوتے جنکی بنیاد پردہشت گردوں اور انکے سرپرستوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں کیس لیکر جاتے۔ ایسےمیں یا تو انکو سزائیں ملتیں یا پھربریت کی صورت انکے سرپرست پوری طرح بےنقاب ھوجاتے اور کسی بین الاقوامی فورم میں جانے کے مواقع دوچند ھوجاتے۔