[follow_me]تحریر- نسیم جاوید
یہ اس زمانے کی بات ھے جب کوئٹہ امن کا گہوارہ تھا۔ بولان میڈیکل کالج کے پاس لوڑ ندی میں ایک میدان ھے جہاں مقامی سگ بازان کتوں اور ریچھ کی لڑائیاں کراتے تھے۔ جمعہ کا دن تھا شام کے وقت میں کسی کام سے بروری جارھا تھا دیکھا کہ ندی کے آس پاس ھزاروں تماشائی جمع ھیں اور کتوں کی لڑائی دیکھ رھے ھیں میں بھی رک گیا اور اپنی موٹر سائیکل کھڑی کرکے تماشائیوں میں شامل ھوگیا۔
دو بڑے اور نوکیلے دانتوں والے کتے جنونی انداز میں لڑ رھے تھے دونوں لہو لہان ھو رھے تھے اور تھکاوٹ سے ہانپ رھے تھے۔ کتوں کے مالکان مقامی زبان میں مسلسل چیخ رھے تھے: ’’پکڑو، مارو، چیر دو، شاباش میرے بیٹے‘‘ ۔
تماشائی میں سے کسی آدمی نے کہا: ’’ان کتوں پر ساٹھ ھزار کا جوا لگا ھوا ھے یہ بڑی اھم لڑائی ھے‘‘۔ کسی اور نے کہا: ’’ساٹھ ھزار تو صرف مالکان نے لگائے ھیں باقی جواریوں نے بھی ھزاروں روپے لگائے ھیں‘‘۔ دیکھا تو میدان میں درجنوں جواری کھڑے تھے اور کتوں کی لڑائی پر بولی لگا رھے تھے۔میں سوچ رھا تھا کہ ’’لڑائی‘‘ تو بہت بری بات ھے اگر کوئی ان لڑتے ھوئے کتوں کو نصیحت کرے اور سمجھائے کہ : ’’بس کرو خدا کے لئے آپس میں مت لڑو، تم دونوں لہو لہان ھو رھے ھو، اس لڑائی کا کوئی مقصد نہیں ھے‘‘ تو یقیناًیہ نصیحت فضول ھوگی کیونکہ دانائی کی باتوں کو کتے کبھی نہیں سمجھ سکیں گے اور ھر کتا اپنے مالک کا وفادار ھوتا ھے کتے کی کوئی مرضی نہیں ھوتی جو اس کا مالک چاھتا ھے وھی اس کا مقصد بن جاتا ھے اسی لئے کتے پر کسی نصیحت کسی فلسفہ اور کسی دانش مندی کا اثر نہیں ھوسکتا۔ وہ اسی کے اشاروں پر ناچتا ھے جو اسے بوٹی کھلاتا ھے۔
’’خونی لڑائی‘‘ انتہاپسندی ھے مگر ھم کتوں کو انتہا پسند نہیں کہہ سکتے بلکہ انتہا پسندی کا ذمہ دار کتوں کے مالک ھیں جو پیسوں کی خاطر کتوں کی لڑائی کاخونی کھیل رچاتے ھیں اور دنیا والے !!! دنیا والے صرف تماشا دیکھتے ھیں۔
بیچارہ کتے، بظاھر انتہاپسنددکھائی دیتے ھیں لڑائیوں میں لہولہان ھوتے ھیں اور جان بھی گنوا دیتے ھیں مگر اصل انتہا پسند بہ ھر حال مالکان ھوتے ھیں ۔
دو رھبر خفتہ در روئے دو بستر
دو عسکر خستہ در بینِ دو سنگر
دو رھبر پشتِ میزِ صلح خندان
دو بیرق بر سرِ گورِ دو عسکر
ترجمہ: دو لیڈر دوبیڈ پر سو رھے ھیں ۔ دو سپاھی فرنٹ لاین پر تھک چکے ھیں۔دو لیڈر مصالحتی میز پر بیٹھے ھنس رھے ھیں اور دو سپاھی کی قبر پر دو جھنڈے لگے ھیں۔ بیچارے سپاھی اور عوام بے گناہ مارے جارھے ھیں۔ انتہا پسند سپاھی یا عوام نہیں بلکہ منصب اقتدار پر بیٹھے ھوئے وہ لوگ ھیں جو پیسوں اور کرسی کی خاطر انتہاپسندوں کو میدان میں اتارتے ھیں پھر خونی لڑائی شروع ھوتی ھے۔ ھم گھروں میں بیٹھے یا سوشل میڈیاپر انسانوں کی خونی لڑائیاں دیکھتے ھیں اور اندر ھی اندر پریشان ھوتے ھیں اور سر پکڑ کر سوچتے ھیں کہ انتہا پسندی سے کیسے جان چھڑائی جا سکتی ھے اور یہ انتہا پسندی ھے کیا اور اسے انسانی سماج سے کس طرح ختم کیا جاسکتا ھے یا ھم نوجوان نسل کو انتہا پسندی کے جراثیم سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ھیں؟؟؟ عام طور پر ھم ان تنظیموں یا چھوٹے موٹے مولویوں کو جو مدرسہ چلاتے ھیں اور چیخ چیخ کر تقریریں کرتے ھیں اور ڈنڈے اٹھا کر حجاب اور شرم و حیا نافذ کرنے کی کوشش کرتے ھیں انتہاپسند کہتے ھیں مگر اصل انتہا پسند وہ ھیں جو ان مولویوں کو پیسہ دیتے ھیں اور ھڈی پھینکتے ھیں یہ سب انہی کے فرمان کو مانتے ھیں اور انہی کی لڑائیاں لڑتے ھوئے بے گناہ انسانوں کو خون میں نہلاتے ھیں۔
ایسے مولوی کبھی نصیحت کو نہیں مانے گا بلکہ جو نصیحت کرے گا یا رواداری کی بات کرے گا تو یہی مولوی اس کو بھی کاٹنے کو دوڑے گا اور کفر کا فتوی جاری کرکے اس کا جینا دوبھر کردیگا۔ مولویوں کو ماننے والے لڑائی کے وقت دلیری اور شجاعت کا مظاھرہ بھی کرتے ھیں اور شہید بھی ھوتے ھیں اور پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا پر بحث بھی چھڑ جاتی ھے جو بہت تند و تیز جملوں کے ذریعے بحث کو مرچ و مصالحہ بھی لگاتے ھیں۔ مذھبی جماعت کے لیڈران کسی کو شہید مانتے ھیں اور کسی کو نہیں مانتے۔ اس کی وجہ یہ ھے کہ ھر مولوی اپنے مالک کی بوٹیاں حلال کررھے ھوتے ھیں اور مالک بھی ایسے ھی مولویوں کو چاھتے ھیں اور اسی نسل کے جنونیوں کو پالتے ھیں جو ان کے اشاروں پر بھونکتے بھی ھوں اور کاٹتے بھی۔
مولانا رومی کا ایک فارسی شعر ھے کہ : من ز قرآن مغز را برداشتم۔استخوان پیشِ سگان انداختم
امن کے زمانے میں کوئٹہ شہر کے مقامی جواری پیسوں کی خاطر کتے لڑاتے تھے اور انسانی برادری امن و محبت سے رھتے تھے اور آجکل بین الاقوامی جواری پیسوں (وسائل) کی خاطر انسان لڑا رھے ھیں اور کتے امن سے جی رھے ھیں۔
انتہاپسند وہ بھی ھیں جو صرف اپنے نفس کی مرضی اور اپنی خواھش کا غلام ھوتے ھیں جو دوسروں کی مرضی اور خواھش کو پائمال کرنے کے جنون میں مبتلا ھیں۔
انتہا پسند وہ بھی ھیں جو عقیدہ اور مذھب یا نظریات اور گروہ بندی میں شامل ھوتے ھیں تو وہ صرف اپنے گروہ یا فرقہ کو جنون کی حد تک مانتے ھیں اور دوسرے عقاید کا مذاق اڑانے اور گالیاں دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ انتہاپسند جماعتیں مثلا طالبان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد تشدد اور خونریزی کے لہجے میں بات کرنے کے عادی ھیں یہ جماعتیں عملی طور پر بھی اپنے انتہاپسند ھونے کا ثبوت پیش کرچکی ھیں۔ دھماکے ، خود کش حملے ، مخالفین کے سروں کو تن سے کاٹ کر ان سے فٹبال کھیلنا , عورتوں پر ظلم و جبر اور تعلیم سے دشمنی وغیرہ۔
یہ جماعتیں اپنے ھر انتہا پسندانہ کاروائی کے بعد قرآن و سنت سے دلیل بھی نکال کر پیش کرتے ھیں جس سے پتہ چلتا ھے کہ یہ تمام جماعتیں انتہاپسندی کو جائز قرار دینے کے لئے مذھب کو استعمال کرتے ھیں۔ آج کے دور میں طالبان انتہاپسندی کی سب سے بڑی علامت کے طور پر جانی جاتی ھے لیکن ھم طالبان کو قصور وار نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ مسجدوں کے وھی معصوم طالبان تھے جو شام کے وقت گلی اور محلے کے دروازوں پر دستک دیتے تھے اور ھم انہیں اپنے بچوں کے حصے کا روٹی اور سالن دے کر روحانی تسکین حاصل کرتے تھے ھمیں کیا معلوم تھا کہ کل یہی ھمارے بچوں کا قاتل بن جاے گا۔ انتہا پسند وہ ھیں جس نے ان طالبان کے ھاتھ میں کلاشنکوف اور بم دے کر ان کے ذھن میں حکمرانی کا وھم ڈال دیا تھا۔ وہ کون ھے جنہوں نے مساجد کے طالبعلموں کو انتہاپسندی کا راستہ دکھایا تھا؟؟
اگر ھم نے کوئی بات کرنی ھے کوئی دلیل دینی ھے فکر و فلسفہ اور انسانیت و محبت کا پرچار کرنا ھے اور انتہا پسندی کے خلاف احتجاج کرنا ھے تو ان کے مالکان سے کرنی چاھیے ان لڑاکوں اور انتہا پسند تنظیموں کے سامنے انسانیت، محبت، رواداری اور برداشت کا راگ الآپنا ایسا ھی ھے جیسے ’’بھینس کے آگے بین بجانا‘‘
اگر ھم غور کریں توانتہا پسند ھر گھر اور ھر گلی میں نظر آئے گا۔
وہ استاد جو کسی بچے کو تھپڑ مارتا ھے انتہا پسند ھے۔
وہ پولیس جو رشوت لیتا ھے انتہا پسند ھے۔
وہ وکیل جو بک جاتا ھے انتہا پسند ھے۔
وہ لکھاری جو اپنے ضمیر کو بیچتا ھے انتہا پسند ھے۔
وہ شوھر جو اپنی بیوی کو کنیز سمجھتا ھے انتہا پسند ھے۔
وہ جج جو انصاف کو مقدم نہیں سمجھتا انتہا پسند ھے۔
وہ نوجوان جو بڑوں کی عزت نہیں کرتا انتہا پسند ھے
’’خونی لڑائی‘‘ انتہاپسندی ھے مگر ھم کتوں کو انتہا پسند نہیں کہہ سکتے بلکہ انتہا پسندی کا ذمہ دار کتوں کے مالک ھیں جو پیسوں کی خاطر کتوں کی لڑائی کاخونی کھیل رچاتے ھیں اور دنیا والے !!! دنیا والے صرف تماشا دیکھتے ھیں۔
بیچارہ کتے، بظاھر انتہاپسنددکھائی دیتے ھیں لڑائیوں میں لہولہان ھوتے ھیں اور جان بھی گنوا دیتے ھیں مگر اصل انتہا پسند بہ ھر حال مالکان ھوتے ھیں ۔
دو رھبر خفتہ در روئے دو بستر
دو عسکر خستہ در بینِ دو سنگر
دو رھبر پشتِ میزِ صلح خندان
دو بیرق بر سرِ گورِ دو عسکر
ترجمہ: دو لیڈر دوبیڈ پر سو رھے ھیں ۔ دو سپاھی فرنٹ لاین پر تھک چکے ھیں۔دو لیڈر مصالحتی میز پر بیٹھے ھنس رھے ھیں اور دو سپاھی کی قبر پر دو جھنڈے لگے ھیں۔ بیچارے سپاھی اور عوام بے گناہ مارے جارھے ھیں۔ انتہا پسند سپاھی یا عوام نہیں بلکہ منصب اقتدار پر بیٹھے ھوئے وہ لوگ ھیں جو پیسوں اور کرسی کی خاطر انتہاپسندوں کو میدان میں اتارتے ھیں پھر خونی لڑائی شروع ھوتی ھے۔ ھم گھروں میں بیٹھے یا سوشل میڈیاپر انسانوں کی خونی لڑائیاں دیکھتے ھیں اور اندر ھی اندر پریشان ھوتے ھیں اور سر پکڑ کر سوچتے ھیں کہ انتہا پسندی سے کیسے جان چھڑائی جا سکتی ھے اور یہ انتہا پسندی ھے کیا اور اسے انسانی سماج سے کس طرح ختم کیا جاسکتا ھے یا ھم نوجوان نسل کو انتہا پسندی کے جراثیم سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ھیں؟؟؟ عام طور پر ھم ان تنظیموں یا چھوٹے موٹے مولویوں کو جو مدرسہ چلاتے ھیں اور چیخ چیخ کر تقریریں کرتے ھیں اور ڈنڈے اٹھا کر حجاب اور شرم و حیا نافذ کرنے کی کوشش کرتے ھیں انتہاپسند کہتے ھیں مگر اصل انتہا پسند وہ ھیں جو ان مولویوں کو پیسہ دیتے ھیں اور ھڈی پھینکتے ھیں یہ سب انہی کے فرمان کو مانتے ھیں اور انہی کی لڑائیاں لڑتے ھوئے بے گناہ انسانوں کو خون میں نہلاتے ھیں۔
ایسے مولوی کبھی نصیحت کو نہیں مانے گا بلکہ جو نصیحت کرے گا یا رواداری کی بات کرے گا تو یہی مولوی اس کو بھی کاٹنے کو دوڑے گا اور کفر کا فتوی جاری کرکے اس کا جینا دوبھر کردیگا۔ مولویوں کو ماننے والے لڑائی کے وقت دلیری اور شجاعت کا مظاھرہ بھی کرتے ھیں اور شہید بھی ھوتے ھیں اور پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا پر بحث بھی چھڑ جاتی ھے جو بہت تند و تیز جملوں کے ذریعے بحث کو مرچ و مصالحہ بھی لگاتے ھیں۔ مذھبی جماعت کے لیڈران کسی کو شہید مانتے ھیں اور کسی کو نہیں مانتے۔ اس کی وجہ یہ ھے کہ ھر مولوی اپنے مالک کی بوٹیاں حلال کررھے ھوتے ھیں اور مالک بھی ایسے ھی مولویوں کو چاھتے ھیں اور اسی نسل کے جنونیوں کو پالتے ھیں جو ان کے اشاروں پر بھونکتے بھی ھوں اور کاٹتے بھی۔
مولانا رومی کا ایک فارسی شعر ھے کہ : من ز قرآن مغز را برداشتم۔استخوان پیشِ سگان انداختم
امن کے زمانے میں کوئٹہ شہر کے مقامی جواری پیسوں کی خاطر کتے لڑاتے تھے اور انسانی برادری امن و محبت سے رھتے تھے اور آجکل بین الاقوامی جواری پیسوں (وسائل) کی خاطر انسان لڑا رھے ھیں اور کتے امن سے جی رھے ھیں۔
انتہاپسند وہ بھی ھیں جو صرف اپنے نفس کی مرضی اور اپنی خواھش کا غلام ھوتے ھیں جو دوسروں کی مرضی اور خواھش کو پائمال کرنے کے جنون میں مبتلا ھیں۔
انتہا پسند وہ بھی ھیں جو عقیدہ اور مذھب یا نظریات اور گروہ بندی میں شامل ھوتے ھیں تو وہ صرف اپنے گروہ یا فرقہ کو جنون کی حد تک مانتے ھیں اور دوسرے عقاید کا مذاق اڑانے اور گالیاں دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ انتہاپسند جماعتیں مثلا طالبان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد تشدد اور خونریزی کے لہجے میں بات کرنے کے عادی ھیں یہ جماعتیں عملی طور پر بھی اپنے انتہاپسند ھونے کا ثبوت پیش کرچکی ھیں۔ دھماکے ، خود کش حملے ، مخالفین کے سروں کو تن سے کاٹ کر ان سے فٹبال کھیلنا , عورتوں پر ظلم و جبر اور تعلیم سے دشمنی وغیرہ۔
یہ جماعتیں اپنے ھر انتہا پسندانہ کاروائی کے بعد قرآن و سنت سے دلیل بھی نکال کر پیش کرتے ھیں جس سے پتہ چلتا ھے کہ یہ تمام جماعتیں انتہاپسندی کو جائز قرار دینے کے لئے مذھب کو استعمال کرتے ھیں۔ آج کے دور میں طالبان انتہاپسندی کی سب سے بڑی علامت کے طور پر جانی جاتی ھے لیکن ھم طالبان کو قصور وار نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ مسجدوں کے وھی معصوم طالبان تھے جو شام کے وقت گلی اور محلے کے دروازوں پر دستک دیتے تھے اور ھم انہیں اپنے بچوں کے حصے کا روٹی اور سالن دے کر روحانی تسکین حاصل کرتے تھے ھمیں کیا معلوم تھا کہ کل یہی ھمارے بچوں کا قاتل بن جاے گا۔ انتہا پسند وہ ھیں جس نے ان طالبان کے ھاتھ میں کلاشنکوف اور بم دے کر ان کے ذھن میں حکمرانی کا وھم ڈال دیا تھا۔ وہ کون ھے جنہوں نے مساجد کے طالبعلموں کو انتہاپسندی کا راستہ دکھایا تھا؟؟
اگر ھم نے کوئی بات کرنی ھے کوئی دلیل دینی ھے فکر و فلسفہ اور انسانیت و محبت کا پرچار کرنا ھے اور انتہا پسندی کے خلاف احتجاج کرنا ھے تو ان کے مالکان سے کرنی چاھیے ان لڑاکوں اور انتہا پسند تنظیموں کے سامنے انسانیت، محبت، رواداری اور برداشت کا راگ الآپنا ایسا ھی ھے جیسے ’’بھینس کے آگے بین بجانا‘‘
اگر ھم غور کریں توانتہا پسند ھر گھر اور ھر گلی میں نظر آئے گا۔
وہ استاد جو کسی بچے کو تھپڑ مارتا ھے انتہا پسند ھے۔
وہ پولیس جو رشوت لیتا ھے انتہا پسند ھے۔
وہ وکیل جو بک جاتا ھے انتہا پسند ھے۔
وہ لکھاری جو اپنے ضمیر کو بیچتا ھے انتہا پسند ھے۔
وہ شوھر جو اپنی بیوی کو کنیز سمجھتا ھے انتہا پسند ھے۔
وہ جج جو انصاف کو مقدم نہیں سمجھتا انتہا پسند ھے۔
وہ نوجوان جو بڑوں کی عزت نہیں کرتا انتہا پسند ھے