سانحہ افشار۔ ۔ ۔ ھزارہ نسل کُشی کا ایک اور خونین باب

تحریر – اسحاق محمدی

10967015_893745900675613_1952893612_nپس منظر۔
گرچہ اپریل 1992 میں سابقہ سویت حمایت یافتہ ڈاکٹر نجیب اللہ حکومت کے سقوط کے بعد کابل کو پاکستانی حمایت یافتہ حکمت یار- شاھنواز تنئی اتحاد کے چنگل سے بچانے میں ھزارہ حزب وحدت نے کلیدی کردار ادا کیا لیکن بد قسمتی سے شوریٰ نظار کمانڈر احمد شاہ مسعود کی مخالفت کیوجہ سے برھان الدین ربانی حکومت نے بعض کلیدی وزارتوں بشمول داخلی سیکورٹی کی وزارت کو تمام تر وعدوں کے باوجود”ھزاروں” کو دینے سے اجتناب کیا جسکی وجہ سے نوبت مسلح جھڑپوں تک جا پہنچی۔ احمد شاہ مسعود اس خوش فھمی کا شکار تھا کہ وہ آسانی سے ھزارہ حزب وحدت کو کابل سے بے دخل کرنے میں کامیاب ھو جایگا اور بعد میں ایرانی پاسداران سے قریبی تعلقات والے اکبری، سید فاضل اور شیخ آصف وغیرہ کو ھزارہ اور شعیہ کے نام پر چند معمولی وزارتیں دیکر جان چھڑایگا۔ لیکن بابا مزاری کی قیادت میں متحد”ھزاروں” نے ڈٹ کر اسکا مقابلہ کیا۔ پے درپے ناکامیوں کو دیکھتے ھوے مسعود نے ھزارہ شعیہ مخالف رسول سیاف کے ساتھ ملکر حزب وحدت کو کابل شہر سے نکالنے کی منصوبہ بندی کی جسمیں مذکورہ بالا ایرانی ایجنٹوں نے انکا بھرپور ساتھ دیا جو سانحہ افشارکی صورت سامنے آئی۔

افشارآپریشن-
دستیاب دستاوزات کے مطابق صدر ربانی کیطرف سے گرین سیگنل ملنے کے بعد احمد شاہ مسعود نے رسول سیاف اوراپنے اعلیٰ کمانڈروں کے ساتھ اس آپریشن کی منصوبہ بندی کی جسکی شروعات افشار سے ھونی تھی جس میں بعد از آں شیخ آصف اور اسکے بدنام زمانہ کمانڈر سید انوری کی خدمات بھی حاصل کی گئی۔ آپریشن کے پہلے مرحلے میں10 فروری 1993 کی رات، ھزارہ نشین محلہ افشار سے ملحقہ پہاڑی چوٹی (کوہ رادار) پر شیخ آصف کے حامیوں نے اپنے تمام قایم مورچے خاموشی سے مسعود- سیاف فوجیوں کے حوالے کردیے۔ جسکےبعد ھزارہ نشین آبادی "افشار” پر تین اطراف سے ٹینکوں، بکتربند گاڑیوں کی مدد سے باقاعدہ فوجی یلغار شروع کردی گئیں۔

ھزارہ حزب وحدت کے جنگجو، شیخ آصف کی اس خیانت کے باعث شدید دباو میں آگیئے لیکن نشیب میں ھونے کے با وجود اپنےسے کئی گنا بڑی اور ھر طرح کے جدید اسلحوں سے لیس فوج کا مقابلہ بڑی جوانمردی سے کیا اور کئی گھنٹوں تک دشمن کی پیشقمی کو روکے رکا جسکے دوران علاقے سے بڑی تعداد میں لوگوں کو نکلنے کا موقع مل گیا، لیکن دن کی روشنی میں مسعود کے جنگی جہازوں اور ھیلی کاپٹروں کی شدید بمباری کو دیکھتے ھوے حزب وحدت کے جنگجووں نے شہریوں کو جانی اور مالی نقصانات سے بچانے نیز کابل کی سب سے بڑی ھزارہ نشین آبادی "غرب کابل ” کو بچانے کی خاطر دوسری دفاعی لاین کی طرف نکل گئے۔ اگرچہ انکی یہ حربی چال کامیاب رھی اور مسعود- سیاف فوجیں دیگر ھزارہ نشین علاقوں کو فتح کرنےمیں ناکام رھی تاھم ان شکست خوردہ عناصر نے اپنی ناکامی کا تمامر غصہ افشارکے باقیماندہ نہتے ھزارہ عوام پر نکال دیئے ۔ یوں اگلے چوبیس گھنٹوں (11 اور 12 فروری) کے دوارن مسعود- سیاف درندوں نے ھزارہ جان و مال اور عزت و ناموس کے ساتھ جس طرح کے خونین اور شرمناک کھیل کھیلے اسکی مثال حالیہ تاریخ میں صرف عراق میں ملتی ھے جہاں داعیشی وحشیوں نے یزیدی اقلیت کے خلاف اسی طرح کی انسانیت سوز کھیل کھیلے۔

سانحہ افشار پر بہت ساری تحقیقی رپورٹز اور معتبر آرٹیکلز بشمول ھیومن رائٹس واچ، کئی زبانوں میں دستیاب ھیں۔ میں یہاں صرف روزنامہ گارڈین کا یہ اقتباس پیش کرکے بات آگے بڑھاتا ھوں۔ گارڈین نے اپنے 16 نومبر 2001 کے ایک ریسرچ آرٹیکل میں اس سانحے پر تفصیلی روشنی ڈالی ھےاور ذمہ داروں کی نشاندھی کرنے کے بعد لکھتا ھے کہ ” 11 فروری 1993 کو مسعود- سیاف فوجیوں نے ھزارہ نشین محلہ افشار میں گھس کر ایک ھزارعام شہریوں کو بشمول بوڑھے مرد،عورتیں، بچے یہاں تک کہ انکے کتوں کوبھی قتل کرنے کے بعد انکے سر تن سے جدا کرکےانکے اجسام کو کنوؤں میں پھنک دیں
جیسا کہ بتایا گیا کہ یہ آپریشن اس وقت کے وزیر دفاع احمد شاہ مسعود کی براہ راست نگرانی میں ھوئی جسمیں اسکی معاونت اسکے انٹلیجنس چیف (بعد ازآں کرزئی نایب صدر اول) قسیم فہیم اور اتحاد اسلامی کے صدر رسول سیاف نے کی جبکہ فیلڈ کمانڈرز میں درج ذیل افراد شامل تھے:-

شوریٰ نظار کے
انور ڈنگر، ملا عزت، محمد اسحاق، حاجی بہلول پنجشیری، بابہ جلندر پنجشیری، خنجر پنجشیری، مشتاق لعلی اور باز محمد بدخشانی وغیرہ۔

اتحاد اسلامی رسول سیاف کے
شیر علم، زلمی طوفان، ڈاکٹر عبدللہ، جگرن نعیم، ملا تاج محمد، عبدللہ شاہ، منان دیوانہ۔ امان اللہ کوچی، قومندان شیرین اور ملا کچکول وغیرہ۔
اب تک سانحہ افشار میں عام شہریوں کے بے رحمانہ قتل عام، عورتوں کی بے حرمتی اور بے تحاشہ لوٹ مار کی وارداتوں کی طرف توجہ دی گئی ھیں جبکہ بد قسمتی سےایک اور تاریک پہلو کی طرف کم دھان دیے گیے ھیں اور وہ یہ ھے کہ ان تمام انسانیت سوز جرایم کے ارتکاب کے بعد مسعود- سیاف فوجیوں نے اس ھزارہ نشین محلے کے املاک کو ایک منظم انداز میں اس طرح تباہ برباد کرکے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا کہ 22 سال کا طویل عرصہ گذرنے کے با وجود اسکے مکینوں کی اکثریت آج بھی اسے آباد کرنے پر آمادہ نہیں۔ وہ ابھی تک اندرون ملک یا بیرونی ممالک در بدر کی زندگی کو ترجیح دے رھی ھیں۔ میں ذاتی طورپر ایسے درجنوں خاندانوں کو جانتا ھوں جنکی کروڑوں مالیت کے املاک افشارمیں پڑی ھوئی ھیں لیکن وہ انھیں دیکھنے تک کا گوارا نہیں کرتے۔ حالانکہ طالبان نے بامیان، یکاولنگ، روباتک، قزل آباد بطور خاص مزارشریف میں اس سے کہیں زیادہ بے گناہ "ھزاروں” کا قتل عام کیا لیکن وھاں کے باشندوں نے ان زخموں کو بھلا کر ایک نئی زندگی شروعات کردی ھیں۔مگر افشار کے گھاؤں بہت گہرے ھیں اسلیے وھاں کے باشندے طویل مدت کے بعد بھی نہیں بھول پا رھے ھیں۔
ھزارہ قوم نے دیگر سانحات کی طرح سانحہ افشار کو بھی کبھی فراموش نہیں کی ھے۔ اس دن کی مناسبت سے ھزاروں لوگ جلسے جلوسوں میں شریک ھوکر شھداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ھیں متاثرین سے اظھار ھمدردی کرتے ھیں اورقاتلین کی مذمت کرتے ھوے انکو سزا دینے کا مطالبہ کرتے ھیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ھے کہ ابھی تک افشار سمیت دیگر سانحات کے مجرمین کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچاےجا سکے ھیں۔ بہ اُمیدِ آن روز.


Join the Conversation