تحریر:-اسحاق محمدی
2013 کے عام انتخابات کے نتیجےمیں مرکز اور صوبوں مٰیں نئی حکومتوں خاص طورپر بلوچستان میں میانہ رو بلوچ قوم پرست رہنماڈاکٹرمالک بلوچ کی زیرقیادت -بلوچ-پشتون قوم پرست پارٹیوں کی حکومت قائم ھونےاور تمام تر حکومتی دعوں کےباوجود2014 میں بھی پاکستان میں ” شعیہ قتل عام اور ھزارہ نسل کشی” کا سلسلہ جاری رھا۔اگرچہ گذشتہ سالوں کی نسبت اسکی شدت میں تھوڑی کمی دیکھنےکوملی تاھم معتبر ذرائع کےرپورٹوں کی روشنی میں یہ بجاطورپرکہاجاسکتاھے کہ اس کمی کی وجہ حکومتی اقدامات ھرگزنہیں بلکہ انکی یہ دو وجوحات ھیں(خاص طورپرھزارہ نسل کشی کے حوالے سے) ایک یہ کہ اس دہشتگردی سےمنسلک مسلح گروپس جیسےلشکرجھنگوی وغیرہ کے اراکین کی ایک بڑی تعداد کو مشرقی وسطیٰ کے محاذوں کوپہنچادیگئی ھیں.
جسکااعتراف وزیراعلی ڈاکٹرمالک بلوچ نے بھی کیاھے جبکہ دوسرا ھزارہ جوانوں کا اپنی مدد آپ کے اصول پراختیارکردہ "خودحفاظتی”دیتےرھت اقدام ھے جسکے تحت وہ علمدارروڈ اور ھزارہ ٹاؤن کے محصورھزارہ گیٹوز(محلوں) کی دن رات رضاکارانہ اضافی نگرانی کےفرائض انجام ےھیں۔لیکن اسکےباوجود سال 2014 کے دوران بلوچستان میں 90 کے قریب شعیہ جن میں سے 60 کا تعلق ھزارہ قوم سے تھا، دہشت گردی کا نشانہ بنے (یہ اعدادوشمار سانحات کی نیوز ریپورٹینگ سے لیئے گئے ھیں ممکن ھے اصل شہداء کی تعداد قدرے زیادہ ھو کیونکہ کچھ زخموں کی تاب نہ لاتے ھوے بعد میں جان بحق ھوجاتے ھیں).
جبکہ 93 دیگرزخمی بھی ھوے ۔ یادرہے کہ اس دوران ان ضاکاروں نے دوخودکشدہشتگرد حملہ آوروں کوھلاک کرنے کے علاوہ کم ازکم نصف درجن دہشت گردانہ حملوں کوناکام بنانے میں کامیاب ھوے ھیں بصورت دیگرجانی نقصانات کئی گنا زیادہ ھوتی۔
محصورھزارہ گیٹوزسےباہرمرکزی وصوبائی حکومتی اداروں کی مجرمانہ غفلت اوربےحسی حسب سابق جاری ھیں راکٹ لانچرز سمیت جدیدترین ہتھیاروں سے لیس۔دہشت گرد کوئیٹہ جیسےچھوٹے شہرکےمرکزی بازار سمیت دیگرکسی بھی روڈ یا گلی کوچے میں بلاجھجک "ھزارہ” کو دیکتھےھی گولی مارکر آسانی سے رفوچکرھوجا تےھیں. جوبقول مرکزی وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان,
"ملک کا سب سےزیادہ سیکوریٹی والاشہرھے اور جھاں ھر100
میٹرزکےفاصلےپرکسی نہ کسی سیکوریٹی
ایجنسی کاچیک پوسٹ ضرورھے”۔
سیکوریٹی کےان اداروں خواہ انکا تعلق مرکز سےھیں یا صوبہ سے،انکی دہشت گردوں سے گٹھ جوڑیا ان سے ھمدردی کی قلعی اس وقتت مزیدکھل گئی جب آئی جی جیل خانہ جات بشیراحمد بنگلزئی نے پیچھلے ھفتہ وفاقی حکومت کو یہ رپورٹ بھیجدی کہ بلوچستان کے کسی بھی جیل میں کوئی ایک بھی سزائےموت کےمنتظیر دہشت گردقیدی موجونہیں۔ غضب خداکا 1999 تا 2014، دہشت گردوں کے ھاتوں 1500 سے زاید صرف بےگناہ ھزارہ شعیہ قتل ھوے ھیں ۔
باقی شعیہ ودیگراقلیتوں کے مزید 500 سے زاید بےگناہ مقتولین کوشامل کرکےانکی تعداد 2000 ھزار سےبڑھ جاتی ھے جنکی ذمہ داری لشکرجھنگوی سمیت کسی نہ کسی دہشت گردتنظیم نےقبول بھی کرلی ھیں جبکہ سینکتڑوں بےگناہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں اسکےعلاوہ ھیں۔لیکن ان تمام حقائق کے باوجودصوبہ بھر میں کسی ایک سزایافتہ دہشتگرد کی عدم موجودگی پورے منظرنامے کی وضاحت کیلئے کافی ھے کہ دہشت گردوں کی سرپرستی کہا سے ھو رھی ھیں!!!
لے دےکر ایک بار پھر آپریشن "ضرب غضب” کے دوسرے یعنی شہری فیزکے آغاز اور قدم قدم پر آگےبڑھنے کے مراحل کودیکھنا ھوگا تا کہ "اصلی حکمرانوں” کی نییتوں کا اندازہ ھوکہ آخر دھشت گردی کی اس بھیانک کھیل کو وہ کونسے رخ پرلےجاناچاھتےھیں۔کوئیٹہ میں آباد چھ لاکھ کی ھزارہ آبادی کو اس وقت قتل عام کے علاوہ اقتصادی، سیاسی ، سماجی اور تعلیمی تنھائی کا سامنا ھے جو ھر لحاظ سے ” نسل کشی” کے زمرے میں آتی ھے۔ اس بارے میں ایک علحدہ مضمون لکھنے کا ارادہ ھے وہ بھی اختصار کے ساتھ کیونکہ وب سائیٹ کے قاریئین ابھی تک طویل مضامین پڑھنے کی عادی نہیں بن سکے ھیں۔ سو ھزارہ گی ضرب المثل "کم بوگی ماکم بوگی” سے کام لینا پڑیگا ۔