اسحاق محمدی
پشاورکے المناک سانحےکے بعد 2008 سے التوا میں رکھی گئی پھانسی کی سزاوِں پرعمل درآمد کا سلسلہ ایکبار شروع کردیاگیا ھے۔فی ا لحال شامت تو ان دہشتگردوں کی آئی ھوئی ھےجو فوج سے وابستہ افراد و اداروں پر حملوں میں سزایافتہ ھیں۔اگرچہ وزیراعظم میاں نوازشریف نےکل ایک اجلاس کے دوران ھزارہ ٹاون اور چرچ سانحات کا نام لیکراس بات کی یقین دھانی کرائی کہ تمام دھشت گردوں کو بلاامتیازتختہ دارپرلٹکادیئےجائنگے۔لیکن فرقہ ورانہ دھشتگردی اور خاص طورپرھزارہ نسل کشی میں پیش پیش خوارج تنظیم لشکرجھنگوی اورسپاہ صحابہ کی سیاسی ونگ اھل سنت والجماعت کی طرف سےملک بھر میں اس آپریشن کی حمایت میں جلسےجلوسوں کےانعقاداور ساتھ ہی امیر خوارج ملک اسحاق کی غیرمتوقع رھائی نےعوامی سطح پر بہت سارےشکوک وشبہات کو جنم دینے کاباعث بناھے۔
جھاں تک پاکیستان میں آباد ھزارہ قوم کا تعلق ھےتو وہ پاکیستانی حکمرانوں اوراداروں کیطرف سے تقریبامایوس ھوچکی ھےکیونکہ گذشتہ پندرہ طویل سالوں کےدوران پاکستانی مقتدراداروں کے حمایت یافتہ خوارج دہشتگردوں کے ھاتوں پندرہ سو سے زاید زن ومرد،پیر وجوان یہاں تک کہ شیرخواربچےشہیدجبکہ ساڑھےتین ھزار سےزایدزخمی ھوےھیں اوراعلی ترین سطح پرتمام تروعدوں کےباوجودابھی تک ایک بھی مجرم کو کیفرکردارتک نہیں پہنچایا گیاھے۔ ۔بطورخاص خوارج دہشتگردامیر، اسحاق کی رھائی کوتووہ اپنی زخموں پرنمک پاشی قراردیتی ھے۔حیرت کامقام ھے کہ یہ ڈرامہ صوبہ پنجاب میں کرایاجارھاھےجہاں خودوزیراعظم نوازشریف کا چہتابھائی میاں شہبازشریف خادم اعلی کےمسندپربھراجماں ھےجسکےآشیروادکےبغیرکوئی پتہ بھی ھل نہیں سکتا۔
پاکستان میں یہ ایک کھلاراز ھے کہ صوبہ پنجاب کی حد تک امن وامان کی برقراری کی شرط پر وزیر اعلی موصوف نےخوارج دہشت گردمسلح تنظیموں بشمول کالعدم سپاہ صحابہ ولشکرجھنگوی سے خفیہ معاھدےکررکھاھےجسکےتحت حکومت پنجاب نے ملک کےدیگر حصوں میں ان کی دہشتگردانہ کاروایوں کیطرف سےچشم پوشی کےساتھ ساتھ پنجاب بھرمیں انکی آزادانہ سرگرمیوں کی ضمانت دی ھوئی ھے۔ان حالات میں ھزارہ قوم کے اندرمزیدمایوسی کا آنافطری بات ھے۔اب وہ یہ سوچنے پرمجبورھے کہ شایدیاتو انکاخون سفیدھوچکاھے یاپھربقول ایک بلوچستان پولیس آفیسر کے”اصل خرابی انکےچہروں میں ھے” یعنی انکا ھزارہ ھوناھی انکاجرم بن گیاھےشاید یہی ایک تلخ حقیقت ھے جسکا برملااظہارکرنےسےپاکستان کےاکثرجہان دیدہ سیاستدان اورگھاگ بیوروکریٹس پہلوتہی کرتےآرھےھیں یہاں یہ یاد دلانا کافی ھوگاکہ ان پندرہ سالوں(1999تا2014) کےدوران “ھزاروں” نےیکےبعددیگرےپہلے نواز اب پھرنواز،آصف زرداری کی جمہوری اورجنرل مشرف کی فوجی آمرانہ حکومتوں کےادوار کی تلخیاں سہہ لی ھیں۔
ایک ریاست کےطورپرپاکستان اوراسکےکرتادھرتاوں کیلئےیہ کس قدرشرمناک بات ھےکہ صوبہ بلوچستان کےدارلحکومت کوئٹہ کےعین وسط گورنرھاوس سےمتصیل اور وزیراعلی سمیت سیکوریٹی کے تمام کلیدیاداروں کے ھاوسیز سے محض چندسومیٹرزدور ریلوے ھاکی گراونڈمیں دہشتگردخوارج تنظیمیں نہایت بےشرمی سے “ھزارہ نسل کشی کی سینچریاں” بنانےکابرملااعتراف کرکے باقاعدہ اسناد وٹرافیاں تقسیم کرتےھوئے آیندہ اپنی ان کاروایوں کو جاری رکھنےکاعزم کرتی ھیں جبکہ حکومتی سیکوریٹی کے ادارے انکےخلاف کاروائی کی بجاے انکی حفاظت کا مقدس فریضہ نبھانے پرمامورھیں۔المیہ یہ بھی ھے کہ چھ لاکھ کی آبادی پرمشتمل کوئٹہ کی ھزارہ آبادی دو گیٹوزیعنی محلوں، علمدارروڈ اور ھزارہ ٹاون میں گذشتہ تین سالوں سے محصور ھیں،جسکےخاتمے کا بظاھر امکان مستقبیل قریب میں کم ھی نظرآتاھے۔یہ ھیں نہایت تلخ زمینی حقایق۔لیکن اسکےباوجود فوجی آپریشن ضرب غصب کےدوسرےیعنی شہری فیزپرکسی نئی مثبت پشرفت کا انتظارکرتےھیں بصورت گرناکام ریاست بنانےپرتلے بدکردار حکمرانوں کیطرف سے کےاس قومی گیت کوپھرسےباربارسننےکی
تیاری کرتےھیں کہ “اس پرچم کے سائےتلے ھم ایک ھیں ھم ایک ھیں”۔ اور کسی بڑی تبدیلی کی امیدبھی کرتےھیں۔