یہ تو ایک کھلی حقیقت ھے کہ خوارج دھشتگرد تنظیمیں جیسے طالبان، سپاہ صحابہ، لشکرجھنگوی، لشکرالاسلام، انصارالاسلام، جیش محمد وغیرہ پاکستان کے سب سے طاقتور ادارہ فوج کے "اثاثے” ھیں جن سے وہ بیک وقت کئی مقاصد حاصل کرنےکی کوشش کرھاھے ۔ مثلا طالبان کے ذریعےوہ افغانستان میں دھشتگردی کروا کرایک بار پھراپنی ایک کٹھ پتلی حکومت لانے کی سازش کرھاھےجبکہ انصارالاسلام، جیش محمد کے ذریعے سےانڈیا کی بلیک میلنگ میں لگا ھواھے، اسی طرح پاکستان کے اندر سپاہ صحابہ، لشکرجھنگوی کے ذریعے شعیہ قتل عام اور ھزارہ نسل کشی کا بھیانک خونین کھیل کرواکروہ سعودی عرب اورانکےدیگرحامی خلیجی ریاستوں سے بھاری معاوضہ وصول کررھاھے۔
اسی حقیقت کی روشنی میں "انسانی حقوق کی تنظیم” کا یہ رپورٹ جوکہ ھزارہ نسل کشی سے متعلق ھے نہایت اھمیت کاحامل ھے۔اسی اھمیت کے پیش نظر ھزارہ انٹرنشنل نیٹ ورک اسے اپنے قاریئن کے لیئے پوسٹ کررھاھے.
البتہ یہاں یہ وضاحت ضروری ھے کہ مجرم پاکستانی ریاست کے مجرم قاتل کارندے اپنے جرائم کوچھپانے کیلئے "الٹاچورکوتوال کو ڈانٹۓ” کے مصداق ھزارہ قوم پر ایرانی ایجنٹ ھونے لیبل لگا کر اپنے جرائم کو چپھانے کی ناکام کوشش کرھے ھیں ورنہ بات صاف ھے کہ اگر انکی یہ دعوی مان بھی لیا جاے تو سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ باقی "شعیوں کا قتل عام” کیوں جاری ھیں، یا پھر احمدیوں، ھندووں،سکھوں،عیسایوں کو کس کس کے ایجنٹ ھونے پرقتل عام کا سامنا ھیں۔۔۔!؟؟
۔یہ پوسٹ بی بی سی اردو کے 30 جون 2014 کی اشاعت سے لی گئی ھے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ اموات محض دو حملوں میں ہوئیں، جن میں سے ایک سنوکر کلب کا واقعہ تھا اور دوسرا سبزی منڈی حملہ۔ ان دونوں حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی نے قبول کی تھی۔
ہیومن رائٹس واچ نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ان تمام عسکری گروہ، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں، بالخصوص لشکر جھنگوی، ان کا احتساب کیا جائے اور ان کو غیر مسلح اور منتشر کیا جائے۔
رمضان علی، شکار ہونے والے کا بھائی
میں اپنی دکان سے حملے سے دس منٹ قبل روانہ ہوا۔ ایک ہی قطار میں ہزارہ شیعہ برادری کی چار دکانیں تھیں۔ چاروں پر اکٹھا حملہ ہوا اور چھ سے سات لوگ موٹر سائیکل پر آئے اور فائر کھول دیا۔ انھوں نے نہ صرف ان ہزارہ افراد کو مار دیا جو دکان کے اندر کام کر رہے تھے بلکہ ان کو بھی جو پیچھے سٹور روم میں کام کر رہے تھے۔
مجھے بعد میں پتہ چلا کہ حملے سے دو دن قبل کوئی شخص پٹھان دکاندار کے پاس آیا جس کی دکان چار دکانیں نیچے تھی اور اس سے پوچھا کہ ہزارہ کی کون سی دکانیں ہیں۔ حملہ آور ٹھیک سے جانتے تھے کہ کتنے ہزارہ ان دکانوں میں کام کرتے تھے اور کہاں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر مسلسل جاری حملوں نے پانچ لاکھ کے قریب افراد کو خوف میں زندگی بسر کرنے اور اپنی نقل و حرکت محدود کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
’اس وجہ سے ان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کی تعلیم اور ملازمت تک رسائی محدود ہو گئی ہے۔ اس وجہ سے کافی تعداد میں ہزارہ برادری کے افراد پاکستان سے بھاگ کر دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‘
اس رپورٹ کی تیاری کے لیے ہیومن رائٹس واچ نے سو سے زیادہ بچ جانے والے افراد و متاثرہ خاندانوں کے اراکین، قانون نافذ کرنے والے سکیورٹی اہلکاروں اور خون مختار ماہرین سے انٹرویو کیے۔
ہیومن رائٹس کے ایشیا ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی حکام لشکر جھنگوی کی جانب سے تشدد کو روکنے میں ناکام ہوگئے ہیں اور ہزارہ برادری خوف و ہراس کی فضا میں زندہ رہنے پر مجبور ہے۔ یہ ایک شرمناک بات ہے۔ اس سے بھی زیادہ پاکستانی حکام کا یہ کہنا ہے کہ ان کے حقوق کو محدود کرنا دراصل ان کے زندہ رہنے کی قیمت ہے۔‘
انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق بلوچستان میں متعین فوجی اور غیر فوجی سکیورٹی فورسز نے ہزارہ برادری پر حملوں کی تفتیش کے سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی آئندہ کے لیے کوئی حفاظتی اقدامات کیے ہیں۔
حاجی خوشحال خان، سُنی بس ڈرائیور دسمبر 2011
میں ایران کی سرحد کے روٹ پر ویگن چلاتا ہوں۔ جونہی ہم مستونگ ضلع میں داخل ہوئے تو مسلح افراد تیزی سے ہماری طرف لپکے اور ہمارا راستہ روکا۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ کتنے آدمی تھے، لیکن وہ کلاشنکوفوں اور راکٹ لانچروں سے مسلح تھے۔ انھوں نے ہمیں باہر نکلنے کا کہا۔ انھوں نے ہم سے پوچھا آپ میں سے کون کون سُنی ہے۔
تب انھوں نے سُنیوں کو بھاگ جانے کا کہا۔ ہم اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ پڑے۔ ہر آدمی خوفزدہ تھا ۔۔۔ کوئی اس طرف بھاگا اور کوئی اُس طرف۔ لیکن جہاں انھوں نے ہر اس شخص کو جانے دیا جو شیعہ نہیں تھا انھوں نے اس بات کی تسلی کر لی کہ شیعہ بس میں ہی رہیں۔ اس کے بعد انھوں نے ان کو بس سے باہر نکالا اور فائر کھول دیا۔ میں نے یہ سب ایک قریبی عمارت میں پناہ لیتے ہوئے دیکھا۔
ہیومن رائٹس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کے بین الاقوامی اتحادیوں اور امداد دینے والوں کو چاہیے کہ وہ حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالے کہ وہ بین الاقوامی حقوق کے سلسلے میں اپنے فرائض کی ادائیگی کرے اور بلوچستان میں فرقہ وارانہ ہلاکتوں کے مجرموں کے خلاف مقدمات کی تفتیش اور عدالتی کرروائی کے ذریعے بہتر حکومت کے معیار کو فروغ دے۔
ہیومن رائٹس واچ کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں سنہ 2012 میں کم از کم 450 شیعہ افراد کو قتل کیا گیا جن میں سے 112 افراد کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔ سنہ 2013 میں کم از کم 400 شیعہ افراد کا قتل کیا گیا جس میں 200 افراد کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔سنہ 2008 سے لے کر سنہ 2014 کے اوائل تک ہزارہ برادری کے کم از کم 500 افراد کا قتل کیا جا چکا ہے۔
دوسری جانب فرنٹیئر کور کے ریٹائرڈ عہدیداران نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ ہزارہ برادری کے افراد ’ایران کے ایجنٹ ہیں‘ اور ’ناقابل اعتبار‘ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری اپنی حالتِ زار کو ’مبالغے‘ کے ساتھ بیان کرتے ہیں تاکہ ان کو کسی دوسرے ملک میں پناہ مل جائے اور وہ ایران سے بھی مالی اور سیاسی امداد حاصل کر سکیں۔