تحریر: اسحاق محمدی
محکمہ داخلہ بلوچیستان کے ایک حالیہ خط (کاپی منسلک ھے) میں معتبرخفیہ ذرایع سےملنےوالےرپورٹوں کی روشنی میں انکشا ف کیا گیا ھے کہ شام و عراق میں سرگرم خوارج دھشتگرد تنظیم داعش نے پاکستان میں موجود اپنےھمنوا خوارج تنظیموں، خاص طورپرلشکر جھنگوی اور اھل سنت وجماعت سے مدد مانگی ھے کہ وہ پاکستان بھرمیں دھشتگردانہ حملوں بطورخاص شعیوں کے خلاف حملوں میں انکا ساتھ دیں،جسکے لیئے اس(داعش) نے پہلے سے ھی یہاں دس- بارہ ھزار(مقامی) لوگوں کی رضامندی حاصل کرلی ھیں.
صا ف ظاھرھے کہ لوگوں کی تعدادمیں کمی بیشی کے علاوہ اصل خبرکی صداقت پرشک وشبہ کی گنجایش بہت کم ھے کیونکہ یہ خط، معتبرخفیہ اداروں سے ملنے والی رپورٹوں کے بعدھی جاری کی گئی ھےجوکہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں 100فیصدی نہیں تو کم از کم 90 فیصدی درست ثابت ھوتی آئی ھیں لہذا بجاطورپریہ کہا جاسکتاھے کہ پاکستان میں فرقہ ورانہ بنیادوں پ”ر شعیہ قتل عام” اور "ھزارہ نسل کشی” کی جاری لہر میں مزید شدت آنےوالی ھے جیسے روکنے کیلئے بدقسمتی سے پاکستانی مقتدر اداروں کو نہ تو کوئی دلچسپی ھیں اور نہ باقیوں میں اتنا دم خم .
پاکستان میں فرقہ ورانہ فسادات کی تاریخ سابق فوجیی ڈکٹیٹر جنرل ضیاالحق کے دورسے شروع ھوتی ھےجیسے ایرانی اسلامی انقلاب کے اکابرین کی طرف سے اس نام نہاد انقلاب کودیگرممالک بطورخاص پاکستان تک برامدکرنے کےاحمقانہ نعروں نے سعودی عرب کویہ سنہراموقع فراھم کردیا کہ وہ یہاں تنگ نظرانہ وھابی طرزفکر کی بنیادوں کو استوار کریں۔ چنانچہ دیکھتے ھی دیکھتے پاکستان کےطول و عرض میں سعودی و دیگر خلیجی شیوخ کی مالی معاونت سے دینی مدارس کا ایک جال پھیلادیا گیا۔اب چونکہ جھاد افغانستان کو جاری رکھنے کیلئے انسانی ایندھن کی ضرورت تھی لہذا پاکستانی پالیسی سازوں نے موقع کو غنیمت جانتے ھوے سالوں پرمحیط دینی نصاب کومہینوں تک محدودکرکےدرحقیقت جلد ازجلد کٹرجاھلوں کی ایک کے بعد ایک اور کی ایک نہ ختم ھونے پیداواری زنجیربنانےکا انتظام کرلیا جیسے بعدازآں ضروری فوجی تربیت دیکرافغانستان پارسل کیاجاتا رھا(اب انکی سالانہ تعداد لاکھوں تک پہونچی ھیں). لیکن دوسری طرف سرمایہ لگانے والی قوتوں کے ایران کے حوالے سے اپنے بھی ایجنڈےتھے جیسے انہوں نے سپاہ صحابہ،لشکرجھنگوی وغیرہ جیسی فرقہ ورانہ دھشتگردتنظیمے بنا کرآگے بڑھادیں جسکی طرف سےپاکستانی فوجی سٹیبلیشمنٹ آئی ایس آئی نےانھیں اپنا "سرمایہ”سمجھکر انکی طرف سےمجرمانہ چشم پوشی کی پالیسی اپنائی جو آج بھی جاری ھے، یوں پاکستان میں فرقہ ورانہ قتل وغارتگری کی شروعات ھوئی جسمیں وقت گذرنےکےسا تھ شدت آتی گئی۔ فرقہ ورانہ دھشتگردی کی اس آگ سے ابتک سب سے زیادہ متاثر بلوچستان میں آباد، ھزارہ قوم ھوئی ھے،جس نے گذشتہ 14 سالوں کے دوران نہ صرف دوھزا رسے زائید اپنے فرزندوں کی جانیں گنوائی ھی اور 3500 سے زاید زخمی اور معلول ھوے ھیں جبکہ مالی لحاظ سے مکمل محاصرے میں اور سیاسی و سماجی اعتبارسےانزوا(تنہائی) میں رھنے کےباعث اسے نا قابل تلافی نقصا نات برداشت کرنی پڑی ھیں۔ اس فرقہ ورانہ آگ سے پہلےجہاں انکی آبادیاں صوبہ بھر کے تمام قابل ذکرشہروں اور قصبوں تک پھیلی ھویئ تھی اب سکڑکر کویئٹہ کے صرف دو محلوں تک محدودھوگئی ھیں۔ گذشتہ دو سالوں سے سخت ترین سیکوریٹی حصار میں قیدی رھنے کےباوصف ان پر ایک درجن سے زائید کامیاب اور کئ درجن ناکام خودکش حملے کئےجاچکےھیں جنکی زیادہ تر ذمہ داریاں کلعدم خوارج تنطیم لشکرجھنگوی نے قبول کرتے ھوئے مزید حملوں کی دھمکیاں دیتی آئی ھے مگرمجال ھے کہ ایک بھی دھشتگرد گرفتارھوا ھو، سزا تو بہت دور کی بات ھے.
اب اصل خطرہ اورتشوش کی بات یہ ھے کہ ان عرب خوارج دھشتگردوں کی آمد سے نہ صرف پہلے سےجاری،ان فرقہ ورانہ دھشتگردی کے حملوں میں شدت آئیگی بلکہ ان انسان سوز واقعات کے تکرار کا بھی اندیشہ ھے جس نے دین اسلام کو بدنام اور مسلمانوں کا سر شرم سے جھکا دیا ھے، جیسے ایکسویں صدی کےاس جدید دور میں اپنے مخالفین کے بچوں و خواتین کو پنجروں میں بندکرکے مال مویشیوں کیطرح غلام و کنیز کی صورت فروخت کرنا وغیرہ وغیرہ۔ چونکہ یہ سب انسان سوز حرکتیں، وحشی بدو عرب کلچرکے حصے ھیں اسلیئیے وھاں اسکا ریکشن عرب دنیاسے زیادہ مغرب میں دیکھنے کو مل رھے ھیں جبکہ یہاں ایسی وحشی پنی کی صورت میں ھر کوئی اپنی تمام "ھست و بود” کو داو پر لگا کر میدان میں نکل آنے کا کلچرھے جس سے یہ پورا خطہ خانہ جنگی کی لپٹ میں آکر جہنم میں تبدیل ھو جائیگا۔ ان مخدوش حالات میں پاکستانی ھزارہ اکابرین کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ جاتی ھیں کہ وہ خود بھی حالات پر گہری نظر رکھیں اور آنے والے مشکل حالات کا سامنا کرنے کیلئیے اپنے لوگوں کو بھی تیار کریں.
من آنچہ شرط بلاغ است با تو میگویم
تو خواہ از سخنانم پند گیر یا کہ ملال