تحریر: حسن رضا چنگیزی
قبرستان میں قبر کی کھدائی جاری تھی ۔ پاس ہی تابوت میں بوڑھے سبزی فروش کی میت رکھی تھی جو صبح ایک حملے میں ہلاک ہوے تھے ۔ انہیں غسل دیا جاچکا تھا اورنماز جنازہ بھی پڑھائی جا چکی تھی ۔ لوگ بڑی بے تابی سے قبر کے تیار ہونے کا انتظار کر رہے تھے ۔
قبر تیار ہے میت لے آئیں ۔ کسی کی آواز سنائی دی تو کچھ لوگ آگے بڑھے اور انہوں نے تابوت اٹھا کے قبر کے کنارے رکھ دیا ۔
علی جمعہ کہاں ہے؟ کسی نے آواز دی ۔
آواز دینے والا بوڑھے سبزی فروش کا بھائی تھا ۔ اس کی آنکھیں اپنے بھتیجے کو ڈھونڈھ رہی تھیں تاکہ وہ رسم کے مطابق اپنے والد کی میت قبر میں اتار سکے.
علی جمعہ کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ لوگوں کی بے چینی بڑھ رہی تھی ۔ سب اس کار ثواب سے جلد از جلد فارغ ہونا چاہ رہے تھے ۔ سب کو علی جمعہ کا انتظار تھا ۔
کئی منٹ گذر گئے تبھی علی جمعہ ہانپتا کانپتا قبر کے پاس آپہنچا ۔
کہاں مر گئے تھے ؟چچا نے غصے سےپوچھا ۔ کیا تمہیں اتنا بھی احساس نہیں کہ تمھارے ابو کی میت کھلے آسمان تلے پڑی ہے اور تمہں گھومنے سے فرصت نہیں ؟
علی جمعہ نے ڈبڈباتی آنکھوں سے ایک نظر اپنے چچا پھر مختصر مجمعے کی طرف دیکھ کر کہا کہ ابو کی ریڑھی پر کچھ سبزیاں باقی بچی تھیں جو خراب ہو رہی تھیں ۔ گھر میں پیسوں کی اشد ضرورت تھی اور میں خالی ہاتھ گھر نہیں جانا چاہتا تھا ورنہ میرے بہن بھائیوں کو رات بھوکا سونا پڑتا ۔ میں وہی سبزیاں بیچ کر آرہا ہوں ۔
. یہ کہہ کر اس نے دونوں ہاتھوں سے کفن کا ایک کونا تھاما تاکہ سہارا دے کر اپنے ابو کی میت کو قبر میں اتار سکے ۔ ساتھ ہی کسی کی اونچی آواز ابھری
بر محمد و اہلِ بیت محمد صلواۃ۔
حواله:چنگیزی دات نیت