ڈان اخبار
رواں مہینے کے آغاز میں کوئٹہ کے ایک سینئر ترین پولیس افسر نے کہا تھا کہ ’’آپ جانتے ہیں کہ ہزارہ ہمارے سب سے زیادہ لاڈلے بچے ہیں۔ ہم ان کے تحفظ کے لیے کچھ بھی کریں گے۔‘‘
وہ اُس وقت ایک آف دی ریکارڈ بریفنگ دے رہے تھے، جس میں انہوں نے کوئٹہ میں ہزارہ برادری خاص طور پر ہزارہ ٹاؤن کے اردگرد سیکیورٹی اہلکاروں کے محاصرے کے بارے میں بھی کچھ تفصیل بیان کی۔
لیکن اُن کے نقل و حرکت کے بارے میں کیا سوچا گیا ہے؟ طالبعلم، تاجر، آفس ورکرز؟
پولیس افسر کے مطابق طالبعلموں کو اسکول یا یونیورسٹی جاتے ہوئے ایک پولیس اہلکار تحفظ فراہم کرے گا۔
خوراک کی فراہمی میں درپیش مشکلات پر بحث کی گئی۔
انہوں نے فخریہ طورپر بتایا ’’یہاں تک کہ سبزی فروشوں کو پولیس کا محافظ حاصل ہوگا۔‘‘
اور پھر ایک امن و امان کے حقیقی فلسفہ دان کی مانند انہوں نے اس کی وضاحت کی ’’کیا آپ جانتے ہیں کہ ہزارہ کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ وہ مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنے چہرے کے خدوخال کی وجہ سے باآسانی پہچان لیے جاتے ہیں۔‘‘
جب جمعرات کے روز ان آٹھ لاڈلے بچوں کوچہرے کے مختلف خدوخال کی وجہ سے اس وقت گولی مار کر قتل کردیا گیا، جب وہ پھل اور سبزیاں خرید رہے تھے، تو کوئٹہ کی پولیس نے فوری طور پر یہ کہتے ہوئے خود کو اس کی ذمہ داری سے مستثنٰی کرلیا کہ ’’ہم نےانہیں پولیس کے محافظوں کی پیشکش کی تھی، اور انہوں نے ہمیں بتایا ہی نہیں تھا۔‘‘
ہمارے ملک میں متاثرین کو ہی موردِ الزام ٹھرائے جانے کی روایت بہت قدیم ہے، لیکن یہاں ایسا لگتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار یہ کہہ رہے ہوں کہ اگر ہزارہ لوگوں کو شہید ہونے کا اتنا شوق ہے، تو انہیں کون روک سکتا ہے؟
ہزارہ قومی جرگہ کے سربراہ اور ہزارہ برادری کے بہت سے قتل عام کے واقعات میں زندہ بچ جانے والے حاجی عبدالقیوم چنگیزی اب بھی خیال کرتے ہیں اس کو روکنے کا ایک راستہ موجود ہے۔ اس مہینے کی ابتداء کے دوران جب وہ ہزارہ ٹاؤن میں اپنے آفس میں اپنے جیسے زندہ بچ جانے والے ساتھیوں کے حلقے میں بیٹھے تھے۔
ان میں سے ایک شخص جس نے اپنے پورے خاندان کو کھودیا تھا۔ ’’جی ہاں، ان میں سے ہر ایک کو۔‘‘ اس شخص نے اپنا سر ہلایا اور مزید کچھ کہنے سے انکار کردیا۔
یہاں ایک ٹرانسپورٹر بھی تھے، جنہوں نے اپنا مکمل کاروبار کھودیا تھا۔
ایک آٹھ برس کا بچہ اپنے چہرے پر زخم کے نشان کے ساتھ وہاں بیٹھا تھا، اس نے مستونگ میں ہوئے بس کے قتل عام میں اپنی والدہ کو کھویا تھا۔
اس کو ہر ایک بات یاد تھیں ’’میں بس کی اگلی سیٹ پر بیٹھا اپنے بھائی کے ساتھ کھیل رہا تھا، میری والدہ بس کے پچھلے حصے میں بیٹھی تھیں۔‘‘
ہزارہ ٹاؤن کے گھر کم سن نوجوانوں سے بھرے ہوئے ہیں، جو یونیورسٹی نہیں جاسکتے، اور ان کے والدین جو اپنی ملازمتوں پر نہیں جاسکتے۔ ان میں کچھ گن مین بن کر سڑکوں کے کونے میں شوقیہ طور بیٹھ گئے ہیں اور سیکورٹی کے فرائض انجام دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
حاجی عبدالقیوم چنگیزی نے کوئٹہ سے شایع ہونے والے قومی اردو روزناموں کے ایک ڈھیر کو تھپتھاتے ہوئے ان کی سرخیوں کی جانب اشارہ کیا، جن میں مختلف شاعرانہ انداز میں شیعہ ہزارہ کے قتل پر اکسایا گیا تھا۔
’’جب اس طرح کی شہ سُرخیاں سامنے آتی ہیں، اس کے بعد ہماری برادری پر ایک حملہ ہوجاتا ہے۔ کیا کوئی ان شہہ سُرخیوں کو بند کرسکتا ہے؟‘‘
آفس میں موجود ایک نوجوان نے ایک کالعدم فرقہ پرست تنظیم کا فیس بک پیج کھولا، اور حال ہی میں کوئٹہ اسٹیڈیم کے اندر منعقد ہوئے ایک جلسے کا وڈیو کلپ چلایا۔
اس کلپ میں ایک گلوکار ایک گیت گارہا تھا، جس میں تمام شعیوں کو کافر قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد مقررین نے یہی خونی ترغیب نثر میں بیان کی۔
ٹرانسپورٹر لیاقت علی ہزارہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے کاروباری کی بحالی کے لیے فوجی حکام سے رابطہ کیا تھا ۔’’ہمیں یہ لکھ کر دو کہ تمہاری کسی بس پر حملہ ہوتا ہے، تو تم دوبارہ احتجاج نہیں کروگے اور اپنے کفنوں کے ساتھ سڑکوں پر دھرنا نہیں دو گے۔‘‘
وہ اب بھی اس پیشکش پر غور کررہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’کچھ ڈرائیور جو میری بسیں چلانے پر تیار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں گھر پر بیٹھ کر بھی مرنا ہی ہے، تو یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ ہم کام کرتے ہوئے مرجائیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ چلتی ہوئی بس میں ہیں تو ممکن ہے کہ کو زندہ بچ جانے کا ایک بہتر موقع مل جائے۔‘‘
ایک اور نوجوان نے شکایت کی کہ ایسے ڈرائیور جو ہزارہ برادری سے تعلق نہیں رکھتے، انہوں نے ہزارہ برادری کے مسافروں کو اپنی بسوں میں بٹھانے سے انکار کرنا شروع کردیا ہے۔کچھ ہم سے اضافی کرایہ وصول کررہے ہیں۔
جب حکومتِ بلوچستان کہتی ہے کہ ’سیکورٹی سخت ہے‘، تو وہ حقیقی معنوں میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کرتی۔ ہزارہ ٹاؤن کو جانے والی سڑک پر ایک نہیں بلکہ دو فرنٹیئر کور کی چوکیاں قائم کی گئی ہیں، جس میں انتہائی چوکس جوان اور آفیسرز تعینات ہیں، وہ ایک جیسے سوالات تین مرتبہ دہراتے ہیں؛ اس قسم کی سیکورٹی کو دیکھ کر آپ کو میدانِ جنگ کا گمان نہیں ہوتا۔
ہزارہ ٹاؤن کے باقی داخلہ راستوں کو کنکریٹ کی دیوار تعمیر کرکے بند کردیا گیا ہے۔ اس کو اگرچہ اب بھی ہزارہ ٹاؤن ہی کہا جاتا ہے، لیکن یہ دیکھنے میں ایک ٹاؤن سے کہیں زیادہ حراستی کیمپ کی مانند لگتا ہے۔
حاجی عبدالقیوم چنگیزی کہتے ہیں کہ ’’انہیں ہماری حفاظت کے لیے ایک شاندار راستہ مل گیا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا ’’انہوں نے ہمیں اپنے ہی گھروں میں قیدی بنا کر رکھ دیا ہے۔ اگر میں اپنے پڑوسی کی دکان پر جانا چاہوں، تو میں نہیں جاسکتا، اس لیے کہ اس کے راستے میں اب ایک دیوار حائل ہے۔چند دن پہلے میں نے چوکی سے آگے جانے کی کوشش کی، تو انہوں نے مجھ پر اپنی بندوقیں تان لیں، اور کہا کہ تم اپنے گن مین کے بغیر یہاں سے باہر نہیں جاسکتے۔نہیں، دس قدم بھی نہیں۔‘‘
لیکن پھر بھی حراستی کیمپوں کو بھی پھلوں اور سبزیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
کوئٹہ کے بہت سے بیوروکریٹس حقیقی معنوں میں فکرمند دکھائی دیتے ہیں، یہاں تک کہ بعض اوقات وہ ہزار برادری کے خلاف سرکش حملوں پر حیران بھی رہ جاتے ہیں، اسی لمحے ان کی بصیرت ظاہر ہوتی ہے، کیا ان کے قاتلوں کو منظوری حاصل نہیں ہے۔
ایک پولیس آفیسر اس قسم کے لوگوں کا حوالہ دیتے ہیں، جو کوئٹہ شہر میں بڑے جلسوں کا انعقاد کرتے ہیں اور ان میں شیعوں کے قتلِ عام اور ہزارہ کے خاتمے کے بارے میں پُرجوش انداز میں باتیں کرتے ہیں۔
مذکورہ پولیس آفیسر نے کہا ’’میں جب پنجاب میں کام کرتا تھا تو ایسے لوگوں کو قائل کرسکتا تھا، لیکن یہاں پر یہ کچھ بھی سننے کے لیے تیار نہیں۔‘‘
ایک کے بعد دوسرا اہلکار ہمیں اپنے افسوس بھرے لہجے کے ساتھ یہ یاد دلاتاہےکہ ہزارہ برادری کا بنیادی مسئلہ یہ ہے وہ باآسانی پہنچان لیے جاتے ہیں۔
یہ ان کی بدقسمتی ہے کہ ان کے خدوخال منفرد ہیں، اس میں ان کے عقیدے کا قصور کم ہے۔ اس لیے کہ اگر وہ بھی عام لوگوں کی طرح دکھائی دینے لگیں تو وہ اپنے قاتلوں سے بچ جائیں گے۔
جولوگ ہزارہ برادری کے قاتل ہیں، ان کے مقاصد واضح ہیں۔اور جن لوگوں کو ہزارہ کی حفاظت کی ذمہ داری دی گئی ہے، وہ ان کے قاتلوں کا نام لیتے ہوئے اب بھی شرماتے ہیں، اور انہیں مقابلہ کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا ہے۔
جمعرات کے قتل عام کے بعد ان اہلکاروں میں سے ایک سے تقریباً یہی بات کہتے سنی گئی۔’’ہزارہ برادری کا حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ وہ باہر جانا چاہتے ہیں اور اپنے لیے سبزیاں اور پھل خریدنا چاہتے ہیں۔‘‘
حواله: ڈان اخبار