ترجمه: محمد یونس
وادی میں پہاڑی کی چوٹی پر تنہا گھر جہاں سے دریا مویشیوں کے باڑے کے ساتھ مکئی کی پکی ہوئی فصل جو ہمیشہ اچھی ہوتی تھی دلکش منظر پیش کررہا تھا ” زمین کو ہلکی سی بونداباندی کی ضرورت ہے“۔لینکو(Lencho) کسان شمالی مشرق کی طرف سے آنے والے بادلوں کو غور سے دیکھتے ہوئے سوچتا ہے۔
”اس بار بارش ضرور ہوگی، بیگم“
”ہاں اگر اللہ نے چاہا“اس کی بیوی جو کھانے کی تیاری میں مصروف تھی جواب دیتی ہے۔
بڑے لڑکے کھیت میں مصروف تھے جبکہ چھوٹے گھر کے قریب کھیل رہے تھے اسی اثناء میں ماں کھانے کے لئے آواز دیتی ہے۔پوری فیملی کھانے میں مصروف تھی کہ بارش کے قطرے گرنا شروع ہوجاتے ہیں جس کی پیش گوئی کسان نے پہلے کردی تھی۔شمالی مشرق کی جانب سے مزید گہرے بادل آرہے تھے ہوا میں خنکی اور نمی بھی بڑھ رہی تھی کسان بارش سے لطف اندوز ہونے کے لئے مویشیوں کے باڑے کی طرف جاتا ہے اور واپسی پر آکر کہتا ہے کہ ”آسمان سے بارش نہیں بلکہ نئے سکے (Coins) برس رہے ہیں بڑے بڑے قطرے دس سینٹ (Cent) جبکہ چھوٹے پانچ سینٹ (Cent) ……”
مکئی کی فصل کو بارش میں گھیرا ہوا دیکھ کر کسان مطمئن ہوتا ہے لیکن چند ہی لمحوں بعد اچانک تیز ہوا‘ بارش اور طوفانی اولے برسنا شروع ہوجاتے ہیں۔لڑکے منجمد موتی (Frozen Pearlsکو پکڑنے کے لئے بارش میں دوڈتے ہیں۔
”اب یہ واقعی بہت برا ہورہا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ یہ جلد ہی ختم ہوگی۔“کسان پریشان ہوکر کہتا ہے۔
مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا گھر‘باغ‘پہاڑی‘مکئی کی فصل اور پوری وادی پر ایک گھنٹے تک زبردست اولے برستے ہیں حتیٰ کہ کھیت سفید ہوجاتا ہے جیسا کہ کھیت پر نمک کا چھڑکاؤ کیا گیا ہو۔درختوں پر ایک پتا بھی باقی نہیں بچتاہے مکئی کی فصل مکمل طور پر تباہ ہوجاتی ہے کسان کھیت کی یہ حالت دیکھ کر بہت اداس اور پریشان ہوجاتا ہے۔
طوفان ختم ہونے کے بعد کسان کھیت کے بیچ میں کھڑا ہو کر اپنے بیٹوں سے کہتا ہے کہ ”اگر ٹڈی دل بھی فصلوں پر حملہ کرتا تو ضرور کچھ بچ چکاہوتا۔طوفانی بادلوں نے کچھ نہیں بچنے دیا اس سال ہمارے پاس غلہ نہیں ہوگا۔وہ رات غموں سے بھر پور تھی۔
”ہماری تمام محنت ضائع ہوگئی“
”اب کوئی بھی ہماری مدد کرنے والا نہیں ہے اس سال ہم فاقوں میں گزاریں گے۔ مگر ان سب کے دلوں میں خدا وند تعالیٰ سے مدد مانگنے کی امید باقی تھی۔“
”پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے گرچہ ہم پوری طرح تباہ ہوچکے ہیں لیکن یاد رکھو کوئی بھی فاقے سے نہیں مرے گا۔“
”کوئی بھی فاقے سے نہیں مرے گا“ انھوں نے آپس میں عہد کیا۔
تمام رات کسان خدا وند سے مدد مانگنے کے بارے میں سوچتا رہا کسان ایک بیل کی طرح کا انسان تھا جو کھیتوں میں جانوروں کی طرح دن رات کام کرتا تھا تاہم وہ پڑھنا لکھنا بھی جانتا تھا۔
اتوار کی صبح اپنے آپ کو قائل کرنے کے بعد وہ قصبے کے ڈاکخانے میں جاتا ہے اور ایک خط خدا کے نام لکھنا شروع کردیتا ہے۔
وہ لکھتا ہے ”اے خداوند! اگر آپ نے میری مدد نہیں کی تو میرا کنبہ فاقے میں مبتلا ہوجائے گا۔مجھے اپنی فصل کو دوبارہ اگانے اور فصل کے تیار ہونے تک کے لئے سوڈالر (Hundred-Dollor) کی اشد ضرورت ہے کیونکہ طوفانی بادلوں نے ……“
خط کو لفافے میں ڈال کر اس پر ”خدا کے نام“ کا ایڈریس لکھ لیتا ہے اور خط پر مہرلگا کر لیٹر بکس میں ڈال دیتا ہے۔ڈاکخانے کا ملازم پوسٹ مین خط کولے کر اپنے آفیسر پوسٹ ماسٹر کو دکھاتا ہے اسے اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی اس قسم کے پتہ (Address) کا سامنا نہیں ہوا تھا۔
پوسٹ ماسٹر جو کہ ایک موٹا مگر مہربان انسان ہے پہلے پہل خط کو دیکھ کر خوب ہنستا ہے مگر جلد ہی سنجیدہ ہوجاتا ہے خط کو اپنی میز پر رکھتے ہوئے کہتا ہے۔
”واہ کیا خوب عقیدہ ہے!میری خواہش ہے کہ میرا ایمان بھی اس آدمی کی طرح ہو جس نے یہ خط لکھا ہے کسی چیز پر اس طرح یقین رکھو جس طرح وہ یقین رکھتا ہے پر اعتماد ہو کر امید رکھو اور براہ راست خداکو خط لکھو۔“
یقیناً خط کو ڈیلیور(Deliver) نہیں کیا جاسکتا تھا مگر کسان کے عقیدہ کو کم نہ کرنے کے لئے پوسٹ ماسٹر کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ خط کا جواب دیا جائے لیکن جب وہ خط پڑھتا ہے تو یہ حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ اسے جذبہ ہمدردی یا حسب سابق قلم ، کاغذ کی نہیں بلکہ کسی اور چیز کی ضرورت ہے مسئلے کے حل کے لئے وہ کچھ دیر سوچتا ہے اور پھر اپنی تنخواہ میں سے کچھ رقم کسان کے نام الگ کر لیتا ہے اپنے ملازمین اور دوستوں سے بھی خیرات کے طور پر ایسا کرنے کو کہتا ہے۔
اگلے اتوار کو کسان ڈاکخانے میں ذرا جلدی آجاتا ہے حسب معمول اپنے خط کا پوچھتا ہے پوسٹ مین خط اس کے حوالے کرتا ہے۔اس دوران دفتر کے دروازے میں سے کسان کی قناعت کا مشاہدہ کررہا ہوتا ہے۔کسان رقم کو دیکھ کر بالکل حیرت کا مظاہرہ نہیں کرتا کیونکہ اسے اس بات کا یقین تھا البتہ رقم کو گننے کے بعد قدرے اداس ہوجاتا ہے۔دل ہی دل میں سوچتا ہے کہ خدا نہ کبھی غلطی کرسکتا ہے اور نہ ہی کسان کی مطلوبہ رقم کی درخواست سے انکار کر سکتا ہے۔کسان فوراً ڈاک خانے کی کھڑکی کی طرف جاتا ہے کاغذ اور قلم طلب کرتا ہے اور بہت غصے سے جواس کی پیشانی کی جھریوں سے عیاں تھا لکھنا شروع کرتا ہے۔جب لکھنا ختم کرتا ہے ٹکٹ خریدنے کے لئے کھڑکی کی طرف جاتا ہے ٹکٹ کو زبان پر پھیرنے کے بعد مکے کے زور سے اسے لفافے پر چسپاں کرتا ہے جیسے ہی کسان خط کو لیٹر بکس میں ڈالتا ہے پوسٹ ماسٹر اسے نکالنے کے لئے دوڑتا ہے اس پہ لکھا تھا۔
”اے خدا وند! جتنی رقم کے لئے میں نے کہا تھا صرف ستر ڈالر مجھے ملے باقی رقم بھی مجھے بھیج دو کیونکہ مجھے رقم کی اشد ضرورت ہے ہاں البتہ ڈاک کے ذریعے مجھے رقم مت بھیجو کیونکہ ڈاکخانے کے ملازمین بے ایمان ہیں۔“
A Letter to God By Gregorio Lopez y Fuentes (English Translated by Donald A. Yates) was my first Urdu translation short story, which was published on 22nd July 1999 on Literary Page Daily Jang Urdu Newspaper Quetta, Pakistan.